فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں اور اطالوی وزیراعظم جوزیپے کونٹے نے بدھ کو کہا کہ یورپی یونین کو ایک نیا نظام متعارف کروانا چاہیے، جس کے تحت یورپی یونین پہنچنے والے تارکین وطن کو خودکار طریقے سے یورپی یونین کی مختلف رکن ریاستوں میں تقسیم کیا جا سکے۔ اٹلی میں مہاجرین مخالف سابقہ حکومت کے دور میں فرانس اور اٹلی کے درمیان تعلقات میں اس موضوع کی وجہ سے کشیدگی رہی ہے، تاہم اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اس تناؤ سے باہر نکل آئے ہیں۔
اٹلی ایک طویل عرصے سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ حالیہ کچھ برسوں میں اٹلی پہنچنے والے لاکھوں تارکین وطن کا بوجھ بانٹنے میں روم حکومت کی مدد کریں، تاہم مہاجرین کی تقسیم کے حوالے سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے درمیان عدم اتفاق رہا ہے۔
کونٹے کے ساتھ روم میں ملاقات کے بعد ماکروں نے کہا، ''یورپی یونین نے مہاجرین کے بحران سے متاثرہ ممالک خصوصاﹰ اٹلی کے ساتھ یک جہتی ظاہر نہیں کی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''فرانس ڈبلن معاہدے میں اصلاحات کرتے ہوئے ایک نئے فریم ورک کے لیے تیار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مہاجرین کی تقسیم کے ایک خودکار نظام پر متفق ہو سکتے ہیں، جو یورپی یونین کے لیے قابل عمل ہو۔‘‘
روم میں بنگلہ دیشی خواتین کا دقیانوسی صنفی روایات کو چیلنج
یورپ میں اطالوی دارالحکومت روم ایک بڑی بنگلہ دیشی آبادی کا میزبان شہر ہے، جس میں خواتین کا تناسب تیس فیصد ہے۔ بظاہر بنگلہ دیشی تہذیب مرد کے گرد گھومتی ہے لیکن روم میں یہ صورت حال الٹ کر رہ گئی ہے۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک ابھرتی ہوئی برادری
اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق روم میں چالیس ہزار بنگلہ دیشی شہری آباد ہیں۔ ان میں سے بیشتر روم شہر کی ایک مشرقی نواحی بستی ٹور پگناٹارا میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
’کام عورت کے لیے بہتر ہے‘
چھیالیس برس کی لیلیٰ روایتی ملبوسات کی ایک دوکان کی مالکہ ہیں۔ وہ خواتین کی ایک تنظیم (مہیلا سماج کولان سومیتی) کی صدر بھی ہیں۔ لیلیٰ کے مطابق بعض بنگلہ دیشی شوہر خواتین کے اپنا کوئی کاروبار کرنے کو پسند نہیں کرتے۔
تصویر: DW/V. Muscella
گھسی پٹی روایات سے نکلتے ہوئے
29 برس کی سنجیدہ بھی ایک ثقافتی ثالث ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے اٹلی آئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹلی پہنچنے کے بعد انہوں نے حجاب پہننے کا فیصلہ کیا۔ سنجیدہ کے مطابق چند بار انہیں امتیازی رویوں کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے اپنے خاندان کی پرورش اسی ملک میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بطور ایک ثقافتی ثالث گھریلوں خواتین سے ملاقاتوں میں انہیں اطالوی زبان کے کورسز میں حصہ لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
تعلیم بھی حقوق کے حصول ہی کا حصہ
بیس سالہ نائر روم ہی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ لا اسپینزا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ نائر کے مطابق وہ بنگلہ دیشی اور اطالوی دونوں تہذیبوں کی حامل ہیں اور تعلیم کو زندگی کا ایک انتہائی اہم پہلو قرار دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
بنگلہ دیشی روایات بھی روم پہنچ گئیں
چھیالیس سالہ سلطانہ چھبیس برس قبل اٹلی پہنچی تھیں۔ انہوں نے روایتی فیش کا اپنا ایک بوتیک نواحی علاقے ٹور پگناٹارا میں کھولا۔ سلطانہ کے مطابق اٹلی میں مقیم بنگلہ دیشی خواتین اب گھروں سے باہر نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
دو مختلف تہذیبوں کے درمیان پُل
صائمہ پچاس برس کی ہیں۔ وہ ہسپتالوں، اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں ایک ثقافتی ثاللث کے طور پر کام کرتی ہیں۔۔ ان کا خیال ہے کہ اٹلی میں وہ بنگلہ دیشی تہذیب کے چند رنگ کھو تو چکی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ کچھ نئے ثقافتی رنگ سمیٹنے میں بھی کامیاب رہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک نئی نسل
ساحلہ اٹھائیس برس کی ہیں، وہ روم میں پیدا ہوئیں اور اسی شہر میں پلی بڑھیں۔ وہ یہ پسند نہیں کرتیں کہ اُن سے پوچھا جائے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں یا اطالوی۔ ساحلہ کا کہنا ہے کہ اطالوی خواتین کی طرح وہ بھی کھلے ذہن کی مالک ہیں لیکن وہ ایک بنگلہ دیشی بھی ہیں۔ ساحلہ کے مطابق اٹلی میں پیدا ہونے والی بنگلہ دیشیوں کی دوسری نسل زیادہ بہتر محسوس کرے گی۔
تصویر: DW/V. Muscella
ثقافتوں کا انضمام
بنگلہ دیش کی مجموعی آبادی میں نوے فیصد مسلمان ہیں جبکہ دس فیصد کے قریب ہندو ہیں۔ ایک اطالوی محقق کاتیوسچیا کارنا کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی میں ہر شخص ایک منفرد پس منظر کا حامل ہے۔
تصویر: DW/V. Muscella
8 تصاویر1 | 8
کونٹے چند ہفتوں سے یورپی یونین کی حامی حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مہاجرین مخالف رہنما ماتیو سالوینی کی جانب سے حکومت سے نکل جانے، تاہم وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اٹلی میں بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی ڈیموکریٹک پارٹی اور فائیو اسٹار پارٹی نے مل کر حکومت بنائی ہے۔ اس سے یہ امید ہو چلی ہے کہ اٹلی میں تارکین وطن سے متعلق سخت ترین پالیسی میں کچھ نرمی ہو سکتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ 14ماہ تک بہ طور وزیرداخلہ ماتیو سالوینی نے ملکی بندرگاہوں کو تارکین وطن کے لیے عملی طور پر بند کیے رکھا تھا۔ سالوینی کا موقف تھا کہ جب تک یورپی یونین کی رکن ریاستیں تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتیں، اٹلی اپنے ہاں مزید تارکین وطن قبول نہیں کرے گا۔