اٹلی: تارکین وطن کو عارضی ویزے جاری کیے جا سکتے ہیں
شمشیر حیدر روئٹرز
18 جولائی 2017
اٹلی اور یورپی یونین کے دیگر ممالک کے مابین مہاجرین کے معاملے پر رسہ کشی جاری ہے، اب اطالوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں موجود تارکین وطن کو عارضی ویزے جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز کی روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اٹلی کے نائب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ روم حکومت ملک میں موجود تارکین وطن کو عارضی ویزے جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ویزوں کے حصول کے بعد تارکین وطن شینگن معاہدے کے رکن ممالک میں آزادانہ سفر کر پائیں گے۔
اٹلی کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو ویزے دینے کا مقصد ملک میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنا ہو گا۔ حالیہ دنوں کے دوران اٹلی اور دیگر یورپی ممالک کے مابین مہاجرین کے معاملے پر رسہ کشی دیکھی جا رہی ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
ترکی اور یورپی یونین کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد ترکی سے یونانی جزیروں کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی ہوئی لیکن اس کا براہ راست اثر اٹلی پر پڑا اور شمالی افریقی ممالک، خاص طور پر لیبیا کے ساحلوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں اٹلی پہنچنے لگے۔ سال رواں کے صرف پہلے چھ مہینوں میں پچاسی ہزار سے زائد تارکین وطن اٹلی پہنچے۔
اٹلی کو یونین کے دیگر رکن ممالک سے شکایت ہے کہ وہ مہاجرین کا بوجھ بانٹنے میں اٹلی کی مدد نہیں کر رہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔
مہاجرین کو ویزے جاری کرنے کے اس ممکنہ اطالوی منصوبے کا انکشاف اٹلی کے نائب وزیر خارجہ ماریو گیرو نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ ایک مقامی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں جب گیرو سے پوچھا گیا کہ کیا اطالوی حکومت تارکین وطن کو عارضی رہائشی پرمٹ جاری کر سکتی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ روم حکومت اس امکان پر غور کر رہی ہے۔
اطالوی نائب وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اٹلی اور یونین کے دیگر ارکان کے مابین ’رسہ کشی کا مقابلہ‘ جاری ہے۔ ماریو گیرو کا کہنا تھا، ’’ہم یورپی یونین میں (مہاجرین کا) ہاٹ اسپاٹ بننا قبول نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہم مہاجرین کو سمندر سے ریسکیو کرنے پر شرمندہ ہیں۔ اس لیے اٹلی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کے بارے میں فیصلہ کرنا سبھی ممالک کی ذمہ داری ہے۔‘‘
انہوں نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ کتنے تارکین وطن کو ایسے عارضی ویزے جاری کیے جا سکتے ہیں تاہم سیاسی پناہ کی درخواستیں وصول کرنے والے اہلکاروں کو پہلے ہی سے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان تارکین وطن کو عارضی پرمٹ جاری کر سکتے ہیں۔
اطالوی نائب وزیر خارجہ کے اس بیان سے ایک روز قبل ہی اطالوی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ تارکین وطن کو عارضی ویزے جاری کرنا روم حکومت کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔
اس سے قبل سن 2011 میں بھی اٹلی نے شمالی افریقی ممالک سے بھاگ کر اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کو عارضی ویزے دے دیے تھے جس کے بعد دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں نے روم حکومت سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔