اٹلی: سیاسی پناہ کے متلاشی انتہائی غیر یقینی صورتحال میں
مستقیم غوری
26 فروری 2020
اطالوی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ’سکیورٹی ڈکری‘ یا حفاظتی فرمان کے تحت سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر درخواست گزار کو وطن واپسی کے مراکز منتقل کر کے انہیں ملک بدرکر دیا جائے گا۔
اشتہار
اس فرمان کو اٹلی کے سابق وزیر داخلہ ماتیو سالووینی نے 2018 ء میں نافذ کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی مناسبت سے اس متنازعہ حکم کو 'سالووینی ڈکری‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
اٹلی کئی دہائیوں سے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ایک آسان ابتدائی منزل رہا ہے لیکن اس فرمان کے نافذ ہونے کے بعد معاملات اب آسان نہیں رہیں گے۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ سیاسی پناہ سے متعلق قانون میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انسانی تحفظ کی کٹیگری ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اطالوی شہریت دینے اور ختم کرنے کے نئے طریقے بھی وضع کیے جائیں گے۔
اٹلی میں سیاسی پناہ مزید مشکل
اس فرمان کے زد میں کئی ہزار لوگ آئیں گے۔ پاکستانی شہر سیالکوٹ کے رہائشی عارف (فرضی نام) بھی ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔
عارف کے مطابق وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں 2015 ء میں ایک خطرناک سفر کر کے یورپ میں داخل ہوئے۔ یہ سفر کئی مہینوں پر محیط تھا۔ اس دوران انہوں نے انتہائی کٹھن اور دشوار گزار راستے طے کیے جس میں منفی درجہ حرارت میں 20 گھنٹے تک پیدل سفر کرنا بھی شامل تھا، ''اسی راستے پر ہم سے پہلے گزرنے والے کچھ لوگوں کی لاشیں بھی نظر آئیں جنہیں دیکھ کر ایک لمحہ تو ہمت جواب دے گئی۔ ترکی سے یونان کے راستے یورپ میں داخل ہوئے اور پھر یونان سے مقدونیا، سربیا اور ہنگری تک پیدل سفر کیا۔ شدید مشکلات سے گزر کر ہم بالآخر جرمن شہر میونخ پہنچے، جہاں سے ہمیں لِمبرگ شہر کے پناہ گزین کیمپ میں بھیج دیا گیا۔‘‘
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
پاکستان سے اٹلی، جان لیوا مشکلات
عارف کے مطابق ابتدائی کاغذی کارروائی کے بعد انہیں ڈھائی ماہ کا عارضی رہائشی کارڈ جاری کیا گیا اور رہائش بھی فراہم کر دی گئی۔ مگر جرمنی میں جب انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہیں سالہا سال سے سیاسی پناہ نہیں ملی تھی تو وہ جرمن حکام کو اطلاع دیے بغیر اٹلی چلیے گئے، جہاں وہ بلزانو نامی شہر میں داخل ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ اس موقع پر پولیس نے ان کے فنگر پرنٹ چیک کیے تو انہیں واپس جرمنی جانے کا کہا گیا مگر وہ دوبارہ اٹلی داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور پناہ گزین کیمپ میں اندراج کرا دیا، ''مجھے چھ ماہ کا رہائشی اجازت نامہ دیا گیا، جس کی تجدید ہوتی رہی تاہم 2018 ء میں میرا سیاسی پناہ کا کیس مسترد ہوگیا۔‘‘
اس دوران عارف نے آسٹریا میں بھی قسمت آزمائی کی اور اب ایک بار پھر وکیل کے ذریعے سیاسی پناہ کا کیس داخل کرایا ہوا ہے، '' اگر کیس دوبارہ مسترد ہو گیا تو پھر کچھ اور سوچوں گا شاید جرمنی چلا جاؤں جہاں پہلی بار فنگر پرنٹ دیے تھے۔‘‘
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
9 تصاویر1 | 9
واپسی کی کوئی گنجائش نہیں
اتنی مشکلات اور دشواریوں کے باوجود عارف واپس پاکستان جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ابھی امید ہے کہ شاید کچھ ہو جائے گا اگر نہیں بھی ہوا تو کسی بھی قیمت پر واپس پاکستان نہیں جاؤں گا۔ قرضہ لے کر آیا ہوں۔ وہاں روزگار بھی نہیں۔ ابھی ہمارے وزیر اعظم صاحب کا بیان تھا کہ ان کا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ ان کا تودو فرد کا کنبہ ہے جبکہ میرے کنبہ میں 10 افراد ہیں میں کیسے گزارا کروں گا؟‘‘
یہ صورتحال صرف پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور عراق وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنے وطن واپسی پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایسے ایک شخص عبدالرحمان ہیں۔ وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے اٹلی میں ہیں اور اب ان کے رہائشی پرمٹ کی تجدید نہیں ہو رہی کیونکہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ ان کی نئی درخواست جلد قبول ہوجائے گی۔
واضح رہے گزشتہ سال اٹلی میں 80 ہزار سے زائد سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ لوگ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف امیگریشن اور سیاسی پناہ کے قوانین میں تبدیلیوں کی پرواہ کیے بغیر لوگ اب بھی مسلسل اٹلی آرہے ہیں۔
وُوچجیک مہاجر کیمپ: مہاجرین سردی سے شدید خوفزدہ
بوسنیا اور ہیرسے گووینا کے شمال مغرب میں رواں برس موسم گرما سے مہاجرین کا کیمپ قائم ہے۔ حالات ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ یہ کیمپ گندگی سے بھرا ہے اور مضر صحت ہے۔ یہاں ہر شے کی کمی ہے اور اب سردی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
سردی کے علاوہ کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا
وُوچجیک کے مہاجر کیمپ کو اکتوبر کے اختتام سے سردی نے گھیر لیا ہے۔ بوسنیا میں درجہ حرارت دس سیلسیئس سے گر چکا ہے۔ زیادہ تر مہاجرین موسم سرما سے بچاؤ کے لباس بھی نہیں رکھتے۔ ان کا واحد سہارا عطیہ شدہ کپڑے اور کمبل ہیں۔ بعض کے پاس تو بہتر جوتوں کا جوڑا بھی نہیں ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
زہریلا دھواں یا ٹھنڈ سے موت
اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے پاکستانی، افغان اور شامی مہاجرین جنگل سے جمع شدہ لکڑیوں کو جلاتے ہیں۔ اپنے پتلے ترپالوں والے خیموں میں یہ مہاجرین منجمد کر دینے والی سردی سے بچنے کے لیے زہریلے دھوئیں میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اس دھوئیں سے انہیں پھیپھڑوں کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
ملبے پر زندگی
وُوچجیک کا مہاجر کیمپ رواں برس جون میں ضرورت کے تحت قائم کیا گیا۔ بوسنیا ہیرسے گووینا میں سات سے آٹھ ہزار کے درمیان مہاجرین ہیں۔ زیادہ تر شمال مغربی شہر بہاچ کی نواحی بستی میں رکھے گئے ہیں۔ سبھی کیمپ گنجائش سے زیادہ مہاجرین سے بھرے ہیں۔ وُوچجیک کا کپمپ بہاچ سے چند کلو میٹر دور زمین کی بھرائی کر کے بنایا گیا ہے۔ یہ مہاجر کیمپ کے بین الاقوامی ضابطوں سے عاری ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
انتہائی خطرناک کیمپ
امدادی تنظیمیں بوسنیا ہیرسے گووینا سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وُوچجیک کے کیمپ کو بند کر دیا جائے اور یہاں کے مہاجرین کو بہتر رہائش فراہم کی جائے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرت کے ادارے کے کوآرڈینیٹر کے مطابق اگر مہاجرین نے موسم سرما اس کیمپ میں گزار دیا تو کئی کی موت ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
یورپی یونین: نزدیک مگر بہت دور
وُوچجیک کا کیمپ کروشیا کی سرحد سے صرف چھ کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ کئی مہاجرین یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ بعض کامیاب اور بعض ناکام رہے۔ ناکام ہونے والے واپس اسی کیمپ پہنچ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بارودی سرنگیں بھی ہیں اور سڑک پر چلنا ہی بہتر ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
ٹھنڈے پانی میں نہانا
وُوچجیک کے کیمپ میں کنستروں میں ٹھنڈا پانی دستیاب ہے۔ یہی پینے اور نہانے کے لیے ہے۔ غیرصحت مندانہ ماحول بڑے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کیمپ میں خارش کی بیماری اسکیبیز پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ بنیادی طبی امدادی دستیاب نہیں۔ شدید علالت کی صورت میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
باہر کی دنیا سے رابطہ
وُوچجیک کیمپ میں پانی اور بجلی کی محدود سپلائی ہے۔ موبائل فون رکھنے والے خوش قسمت ہیں کہ اُن کا رابطہ باہر کی دنیا سے ہے اور یہی ان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ بعض مہاجرین کے مطابق ان کے فون چوری یا ضائع ہو چکے ہیں اور کئی کے فون سرحد پر کروشیا کی پولیس نے نکال لیے ہیں۔ کروشیا ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
گھر جیسی چھوٹی سی جگہ
وُوچجیک کیمپ میں یہ مہاجرین اپنے ملک جیسی روٹیاں پکانے میں مصروف ہیں۔ ریڈ کراس انہیں خوراک کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن یہ خوراک بہت کم خیال کی جاتی ہے۔ ریڈ کراس کے علاقائی سربراہ نے چند ماہ قبل سرائیوو حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اُس نے علاقے کو نظرانداز کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
اکھٹے رہنے میں بہتری ہے
اس کیمپ میں آگ پوری طرح مہاجرین کے جسموں کو گرم رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ وہ وُوچجیک سے فوری طور پر منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک افغان مہاجر کے مطابق سلووینیا اور کروشیا میں مویشیوں کے لیے بنائی گئی عمارتیں اس کیمپ سے بہتر ہیں۔ اُس کے مطابق یہ کیمپ نہیں ہے اور نہ ہی انسانوں کو رکھنے کی کوئی جگہ ہے۔