اٹلی کی ایک عدالت نے تیونس کے ایک شہری کو اٹھارہ برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔ اس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ گزشتہ برس اس کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں ملوث تھا، جس کے نتیجے میں سات سو افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Alberto Pizzoli
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اطالوی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ تیونس کے شہری محمد علی ملک پر متعدد الزامات ثابت ہو گئے تھے۔ ملک اس کشتی کا کپتان تھا، جو گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ اس کشتی کے حادثے کے نتیجے میں یقین ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس پر سوار کم ازکم سات سو افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
اطالوی شہری سسلی کی ایک عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ملک پر الزامات ثابت ہو جانے کے بعد استغاثہ نے اٹھائیس سالہ محمد علی ملک کے لیے اٹھارہ برس سزائے قید کی سفارش کی تھی، جو جج نے قبول کر لی۔
اس مقدمے میں شامل تفتیش چھبیس سالہ شامی شہری محمود بخت کو پانچ سال سزائے قید سنائی گئی ہے۔ اس پر الزام تھا کہ وہ انسانوں کی غیرقانونی اسمگلنگ میں ملوث ہوا تھا۔ استغاثہ نے اس کے لیے چھ برس کی سزائے قید کی سفارش کی تھی۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
10 تصاویر1 | 10
ان دونوں مجرموں کو فی کس نو ملین یورو کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی سنایا گیا ہے۔ مقدمے کے دوران ان دونوں نے خود کو بے قصور قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ بھی اس کشتی میں بطور مہاجر سوار ہوئے تھے۔ تاہم بخت نے تصدیق کی تھی کہ دراصل ملک اس کشتی کا کپتان تھا۔ ملک نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اس کشتی کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے افراد میں سے عملے کے کسی رکن کی نشاندہی نہیں کر سکا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ ملک اور بخت دونوں ہی اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں لیکن اس دوران یہ دونوں حراست میں ہی رکھے جائیں گے۔ اس حادثے کی وجہ کشتی میں گنجائش سے زائد مسافروں کو سفر کی اجازت دینا بتائی گئی تھی۔ اٹھارہ اپریل سن دو ہزار پندرہ کو رونما ہونے والے اس حادثے کے فوری بعد اٹھائیس افراد کو بچا لیا گیا تھا جبکہ چوبیس لاشیں برآمد کر لی گئی تھیں۔
مختلف اطلاعات کے مطابق اس کشتی میں تقریباً سات سو افراد سوار تھے تاہم اس تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ اس حادثے کے بعد یورپی ممالک میں بھی تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جبکہ بحیرہٴ روم میں فعال انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کے اس تازہ بحران کے دوران مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بحیرہٴ روم عبور کر کے افریقہ سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسی دوران رونما ہونے والے متعدد حادثات میں سینکڑوں افراد لقمہٴ اجل بن چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خستہ حال کشتیوں اور گنجائش سے زیادہ مسافروں کو کشتی میں سوار کرنا ایسے حادثات کو موجب بنتے ہیں۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر