یورپی بارڈر ایجنسی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی جب کہ اٹلی کا رخ کرنے والے نئے مہاجرین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ادارے ’فرنٹیکس‘ کے سربراہ فابریس لیجیری کا کہنا ہے کہ رواں برس اپریل کے مہینے میں ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے راستے ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تو کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے بعد سے اٹلی تارکین وطن کی نئی پرکشش منزل بن چکا ہے۔
ایک فرانسیسی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے لیجیری کا کہنا تھا، ’’اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران تین لاکھ 60 ہزار غیر قانونی تارکین وطن یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے۔ اگرچہ یہ تعداد پچھلے سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے لیکن اپریل کے بعد سے غیر قانونی تارکین وطن کی یورپ آمد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔‘‘
’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘
02:29
فرنٹیکس کے ریکارڈ کے مطابق 2015ء میں پورے سال کے دوران پندرہ لاکھ غیر قانونی تارکین وطن مختلف یورپی ممالک کی حدود میں داخل ہوئے۔ تاہم مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کی اکثریت ترکی سے یونانی جزیروں تک پہنچی تھی۔
لیجیری کا کہنا تھا اس برس اٹلی غیر قانونی تارکین وطن کی نئی منزل بن چکا ہے جہاں روزانہ کی بنیادوں پر 750 تارکین وطن بحیرہ روم کے راستے اطالوی جزیروں پر پہنچ رہے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں اب یونانی جزیروں پر روزانہ تقریباﹰ 50 تارکین وطن پہنچ رہے ہیں۔
فرنٹیکس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یونان کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی کی پہلی بڑی وجہ ترکی کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ہے جس کے تحت انقرہ حکومت یونین سے مالی اور سیاسی سہولیات حاصل کرنے کے عوض تارکین وطن کو یورپ کا رخ کرنے سے روک رہی ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحد بند کی جا چکی ہے جس کے باعث تارکین وطن بلقان کی ریاستوں کے زمینی راستوں سے گزر کر شمالی اور مغربی یورپ کا رخ نہیں کر پا رہے۔
دوسری جانب بحیرہ روم عبور کرنے کی کوششوں میں سمندر میں ڈوب جانے والے تارکین وطن کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی تنظیم ’آف شور ایڈ اسٹیشن‘ کے مطابق اس نے جمعرات کے روز لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی کا رخ کرنے والی ایک کشتی میں سے چار سو تارکین وطن کو زندہ بچا لیا لیکن چار تارکین وطن اس طویل سفر کے دوران جان کی بازی ہار بھی گئے۔
اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپی یونین مستقبل قریب میں فرنٹیکس کا نام بدل کر ’یورپیئن بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی‘ رکھنے والی ہے جب کہ اس ایجنسی کے اہلکاروں کی تعداد میں بھی مزید پندرہ سو کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔