اٹلی ميں بڑھتی ہوئی عواميت پسندی اور مہاجرين کا مستقبل
عاصم سلیم Bernd Riegert
23 مئی 2018
اٹلی ميں عواميت پسندی بڑھ رہی ہے اور يہ خوف پايا جاتا ہے کہ نئی حکومت سخت اميگريشن پاليسی اپنائے گی۔ ايسے ميں وہاں موجود لاکھوں تارکين وطن کا مستقبل کيسا دکھائی ديتا ہے؟ جانيے ڈی ڈبليو کے برنڈ ريگرٹ کی اس رپورٹ ميں۔
اشتہار
شيارہ بيرگامينی کا تعلق ايک غير سرکاری امدادی تنظيم ’In Migrazione‘ سے ہے۔ وہ اطالوی زبان سکھانے کی ماہر ہيں۔ بيرگامينی بتاتی ہيں کہ وہ اپنی کلاس ميں پڑھنے والے تارکين وطن کو کبھی کبھار کلاس کے بعد قریبی بار لے جاتی ہيں۔ عموماً وہاں موجود لوگ تارکين وطن کو خوش آمديد نہيں کہتے ليکن جب بيرگامينی ہمراہ ہوں تو معاملات ذرا مختلف ہوتے ہيں۔ بيرگامينی کے بقول يہ صورتحال ملک ميں اس وقت پائی جانے والی عواميت پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’تارکين وطن سے بات چيت کرنے اور انہيں جاننے کے بعد مقامی لوگوں کی ان کے بارے ميں رائے بدل جاتی ہے۔‘‘
شيارہ بيرگامينی اطالوی دارالحکومت روم کے نواح ميں ہفتے ميں چار بار تارکين وطن کو زبان سکھانے جاتی ہيں۔ ان کے طلبا کی اکثريت قريبی کيمپوں ميں رہائش پذير ہے اور يہ تارکین وطن اپنی پناہ کی درخواستوں پر فيصلوں کے منتظر ہيں۔ بيرگامينی کے مطابق زيادہ تر مہاجرين ان پڑھ ہيں جو اپنے آبائی ممالک اور وہاں سے اٹلی تک پہنچنے کے سفر ميں خوف ناک تجربات سے گزر چکے ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ان ميں سے کچھ تو ذہنی دباؤ کا شکار ہيں اور سارا دن بس اپنے موبائل ٹيلی فون ہاتھوں ميں ليے بيٹھے رہتے ہيں۔ اور ديگر کچھ جو معاشی مقاصد کے ليے يورپ آئے، مايوس اور بے بس دکھائی ديتے ہيں۔‘‘ بيرگامينی کے مطابق ان سے قریب تمام افراد اس پر شکر گزار ہيں کہ وہ اٹلی ميں ہيں۔
امکان ہے کہ ماتيو سالوينی اٹلی کی نئی حکومت ميں وزير داخلہ کی ذمہ دارياں سنبھال سکتے ہيں۔ سالوينی کا تعلق دائيں بازو کی قوم پرست ’دا ليگ‘ پارٹی سے ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران سالوينی يہ اعلان کر چکے ہيں کہ وہ پانچ لاکھ تارکين وطن کو ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ وہ یہاں تک بھی کہہ چکے ہيں کہ مہاجرين ہی وہ مجرم ہيں، جن سے اٹلی کو چھٹکارہ حاصل کرنا ہے۔ امدادی تنظيم ’In Migrazione‘ کے سربراہ سيمون آندريوٹی اس بارے ميں فکر مند ہيں۔ ان کے بقول اس بات کے قوی امکانات ہيں کہ اٹلی ميں مہاجرين اور ترک وطن پس منظر کے حامل افراد اور غير ملکی دکھنے والوں کے خلاف حملوں ميں اضافہ ہو سکتا ہے۔
سيمون آندريوٹی کا کہنا ہے کہ اطالوی نظام مہاجرین کے سماجی انضمام کو فروغ نہيں ديتا۔ مہاجرين کو شہر سے باہر بڑے کيمپوں ميں رکھا جاتا ہے، جہاں نہ تو ان کے مقامی لوگوں کے ساتھ روابط بڑھ پاتے ہيں اور نہ ہی ان کو زبان سيکھنے کا موقع ملتا ہے۔
سيمون آندريوٹی اور شيارہ بيرگامينی، دونوں ہی کا ماننا ہے کہ پانچ لاکھ افراد کی ملک بدری ايک ناقابل عمل بات ہے۔ پولينڈ، ہنگری، چيک جمہوريہ اور آسٹريا جيسے ممالک مہاجرين کو اپنے ہاں پناہ دینے پر رضا مند نہيں۔ ايسے ميں اٹلی کے لیے اپنے ہاں موجود مہاجرين کو ديگر ملکوں کی جانب منتقل کرنے ميں دشواريوں کا سامنا ہو گا۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔