اٹلی: مہاجرین کے اسمگلرز کو بیس ، بیس سال قید کی سزا
صائمہ حیدر
13 اکتوبر 2016
اٹلی کی ایک عدالت نے سینکڑوں مہاجرین کو غیر قانونی طور پرایک کشتی میں بھر کر یورپ پہنچانے کی کوشش پر تین افراد کو بیس بیس سال قید کی سزا سنائی ہے۔
اشتہار
اٹلی کے ساحلی شہر کتانیا کے قانونی ذرائع کے مطابق ایک عدالت نے ان تینوں افراد کو قتل اور انسانوں کی اسمگلنگ کا حصہ بننے کا مجرم قرار دیا ہے۔ اس حادثے کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے اس واقعے میں انچاس پناہ گزین بحیرہ روم کے سفر کے دوران دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ امدادی کارکنوں نے ماہی گیری کے لیے استعمال کی جانے والی ایک کشتی کے اندرونی حصے سے لاشوں کو برآمد کیا تھا۔ علاوہ ازیں تین سو بارہ زندہ بچ جانے والے مہاجرین کو بھی باہر نکالا گیا تھا۔
حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں اور زندہ بچ جانے والے افراد کو ایک نارویجین جہاز کے ذریعے کتانیا لایا گیا تھا۔ دیگر پانچ مشتبہ افراد پر بھی کتانیا کی عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ اِن افراد پر کشتی پر بطورِ عملہ کام کرنے کا شبہ تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق ان تینوں سزا پانے والے افراد کے نام محمد السّید، مصطفی سیّد اور محمد علی چوچانے ہیں۔ قانونی ذریعے کے مطابق انیس سالہ السید کا تعلق لیبیا سے ہے جب کہ موخر الذکر دونوں افراد کی عمریں چوبیس برس ہیں اور ان کا تعلق بالترتیب مراکش اور تیونس سے ہے۔
جولائی سن دو ہزار پندرہ میں بھی بحیرہ روم کے جزیرے سِسلی کی ایک عدالت نے تیونس کے ایک باشندے کو سن دو ہزار تیرہ میں تارکینِ وطن کا ایک جہاز ڈوبنے کے بعد اٹھارہ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس کشتی کی غرقابی کے نتیجے میں بحيرہ روم ميں تین سو چھیاسٹھ مہاجرين ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ تیونسی باشندے پر مہاجرین کو غیر قانونی طور پر جہاز میں سوار کرانے میں تعاون کرنے کا الزام تھا۔ پراسیکیوٹرز کا مطالبہ ہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں ڈوبنے والی پناہ گزینوں کی کشتی کے کپتان کو اٹھارہ سال قید کی سزا سنائی جائے۔ اُس کشتی میں چھ سو مہاجرین سوار تھے۔
یاد رہے کہ اٹلی کے ہمسایہ ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کو بند کر رکھا ہے اور اِس ملک میں پہنچنے والا ہر مہاجر وہاں رکنے پر مجبور جاتا ہے۔ مہاجرت کے تیسرے برس اٹلی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یورپی یونین کے حکام کے مطابق ان مہاجرین کی قریب نّوے فیصد تعداد نے اپنے سفر کا آغاز لیبیا میں انسانی اسمگلرز کی کشتیوں کے ذریعے کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں ایک لاکھ بیالیس ہزار کے قریب پناہ گزین اٹلی پہنچے جب کہ تین ہزار ایک سو تارکینِ وطن مہاجرت کے خطرناک سفر میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔