اٹلی میں تارکین وطن پر عائد کیے جانے والے یہ الزامات کہ وہ خواتین پر جنسی حملوں میں ملوث ہیں، مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اٹلی میں یہ معاملہ آئندہ برس کے انتخابات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
اشتہار
مہاجرین مخالف رہنما ملک کی بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ مہاجرین کے معاملے میں نرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مہاجرین مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے اٹلی میں جرائم کی شرح بڑھی ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے درمیان قریب چھ لاکھ تارکین وطن اٹلی پہنچے ہیں، جن میں بڑی تعداد براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔
رواں ہفتے اطالوی پولیس نے روم میں فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کو ریپ کرنے کے الزام میں ایک بنگلہ دیشی شخص کو گرفتار کیا تھا۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعت نادرن لیگ کے سربراہ ماتیو سالوینی نے اسی تناظر میں اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’یہاں ایسے بہت سے لوگ ہیں، میں ان میں سے بہت سوں کو واپس بھیجوں گا۔‘‘
روم میں جنسی زیادتی کے اس واقعے سے دو ہفتے قبل چار افریقی تارکین وطن نے ایک نوجوان پولستانی سیاح کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ ان مبینہ حملہ آوروں میں تین کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہیں۔
بحیرہ روم میں سرگرم امدادی اداروں پر فرنٹیکس کے الزامات
03:55
ایک اور واقعے میں ایک خاتون کے ساتھی کو چند نوجوانوں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، جب کہ پیرو سے تعلق رکھنے والی ایک ٹرانس جینڈر خاتون نے انہی چار افریقی نوجوانوں کی جانب سے اجتماعی جنسی زیادتی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔
ان چار حملہ آوروں کے گینگ کا لیڈر سیاسی پناہ کا متلاشی کانگو سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا، جسے انسانی بنیادوں پر اٹلی میں رہائش کی اجازت دی گئی تھی۔ دیگر ملزمان میں سے دو کا تعلق مراکش سے ہے، جب کہ ایک نائجیرین شہری ہے۔
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
7 تصاویر1 | 7
بدھ کے روز اطالوی اخبار ریپبلکا میں جاری کردہ ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ قریب 46 فیصد اطالوی شہری تارکین وطن کو اپنی جان کے لیے خطرہ اور امن عامہ میں نقص کا سبب سمجھتے ہیں۔ فروری میں کرائے گئے ایسے ہی ایک سروے میں یہ تعداد 40 فیصد تھی۔