اٹلی میں ایک موٹر وے پر قائم پل کے انہدام کے واقعے میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ پولیس نے دس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
اطالوی بندرگاہی شہر جینووا کے قریب ایک موٹر وے پر قائم ایک پل منہدم ہو جانے کے واقعے میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ مقامی ایمبولنس سروس کے مطابق اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد درجنوں میں ہو سکتی ہے، جب کہ اطالوی وزیرِ ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایک ’بڑا سانحہ‘ معلوم ہو رہا ہے۔
منگل کے روز یہ پل مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے منہدم ہوا اور وقت وہاں بارش جاری تھی۔ مقامی پولیس کے مطابق اس پل کے انہدام کی وجہ سے بیس گاڑیاں متاثر ہوئی ہیں، جب کہ دس افرادکی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اطالوی ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے مناظر میں اس پل کے منہدم حصے اور ملبے کے ٹکڑے جگہ جگہ بکھرئے نظر آتے ہیں۔ یہ پل اطالوی موٹر وے A10 پر قائم تھا اور سن 60 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
مقامی حکام کے مطابق اس پل کی سن 2016ء میں مرمت اور توسیع کا شروع کیا گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ انہدام کے وقت اس پل کی بنیادوں پر کام جاری تھی، جب کہ اس پل کی مسلسل نگرانی بھی کی جا رہی تھی۔ یہ بات اہم ہے کہ یہ موٹر وے فرانسیسی جنوبی ساحلی علاقوں اور اٹلی کے درمیان اہم ترین سڑک ہے۔
اورنج لائن میٹرو منصوبے سے کونسی تاریخی عمارتوں کو خطرہ ہے؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت کی جانب سے اورنج لائن منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ ان میٹرو منصوبے کے زد میں کئی تاریخی عمارتیں آ رہی ہیں۔ ان میں کچھ تاریخی مقامات کی تصاویر۔
تصویر: DW/T. Shahzad
بدو کا آوا
میٹرو ٹرین کے زیر تعمیر ستونوں کے درمیان نظر آنے والا گنبد "بدو کا آوا" یا بدو کا مقبرہ ہے۔ مغل بادشاہ شاہجہان کے دور میں تعمیر ہونے والی اس عمارت کا دلکش طرز تعمیر اب متروک ہو چکا ہے۔ جی ٹی روڈ پر میٹرو ٹرین سے یہ عمارت بھی پس منظر میں چلی جائے گی۔ سترہویں صدی کی اس عمارت کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
چوبرجی بھی دکھائی نہیں دے گی
1646ء میں تعمیر ہونے والی مغلیہ دور کی اس عمارت کو اس کے چار برجوں کی وجہ سے چوبرجی کہا جاتا ہے، مغل بادشاہ اورنگزیب کی بیٹی کے زیب النسا سے منسوب اس عمارت کے سامنے سے پینتیس فٹ اونچے ٹریک سے جب میٹرو ٹرین گزرے گی تو مغلیہ طرز تعمیر کا شاہکار بہت سی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
کئی جگہ کام رک گیا
مغلیہ شہزادی زیب النسا کے مقبرے کی تاریخی عمارت کے قریب بھی میٹرو ٹرین کا کام عدالتی حکم کے بعد روک دیا گیا ہے۔ 27 کلومیٹر لمبی اس میٹرو ٹرین پر 165 ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
درگاہ بچ گئی
لاہور کے نابھہ روڈ پر موجود درگاہ موج دریا بھی میٹرو ٹرین کے ابتدائی منصوبے میں ٹرین کے راستے میں تھی لیکن ابھی زیر زمین راستے کی تیاری کی وجہ سے اسے بچا لیا گیا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
تعمیراتی کام روکنے کا عدالتی حکم
1860ء میں تعمیر کیے جانے والے سینٹ اینڈریو چرچ نابھ روڈ کا کچھ حصہ بھی میٹرو ٹرین میں آنے کا خدشہ تھا اس لیے عدالت نے یہاں بھی تعمیراتی کام روک دیا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
خطرہ بدستور باقی
1849ء میں لاہور کے مال روڈ پر تعمیر کی جانے والی جنرل پوسٹ آفس کی اس تاریخی عمارت کو 1985ء میں بنائے جانے والے تاریخی مقامات کے تحفظ کے ایک قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ عوامی احتجاج کے بعد اگرچہ یہاں سے میٹرو کو زیر زمین گزارنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے لیکن تعمیراتی ماہرین کو خدشہ ہے اس کی سلامتی کو اب بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
بچنا مشکل ہے
لاہور کے مال روڈ پر واقع1887ء میں تعمیر ہونے والے کیتھیڈرل چرچ بھی لاہور اورنج لائن منصوبے کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
منظر بدل جائے گا
جب اورنج ٹرین منصوبہ مکمل ہوگا تو لاہور کا تاریخی لکشمی چوک بھی اپنا روایتی منظر نامہ کھو چکا ہو گا۔ لاہور کے میکلوڈ روڈ پر، مون لائیٹ سینما کے سامنے واقع منفرد طرز تعمیر کی حامل قدیم عمارتیں بھی میٹرو ٹرین کے منصوبے کی نذر ہوتی جا ری ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لکشمی مینشن
1935 میں لکشمی مینشن کے نام سے لاہور کے تاریخی لکشمی چوک میں تعمیر ہونے والی اس خوبصورت عمارت کو بھی عدالت نے منہدم کرنے سے روک دیا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
شالامار باغ
1642 میں تعمیر کیے جانے والے لاہور کے شالا مار باغ کا شمار مغلیہ دور کی شاہکار عمارتوں میں کیا جاتا ہے۔ عالمی ورثہ میں شامل کی جانے والی اس عمارت کے حسن کو بھی میٹرو ٹرین کے تعمیراتی کاموں نے گہنا دیا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
10 تصاویر1 | 10
ایک عینی شاہد نے سکائی اطالیا ٹی وی سے بات چیت میں کہا، ’’میں نے آٹھ یا نو گاڑیوں کو اس پل پر سے نیچے گرتے دیکھا۔ یہ ایک تباہ کن منظر تھا۔‘‘ اطالوی ٹرانسپورٹ وزیر دانیلو تونینیلی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے، ’’ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک بڑا سانحہ ہے۔‘‘