اطالوی حکام نے تصدیق کی ہے کہ وسطی علاقے میں مبینہ طور پر چلتی گاڑی میں سے فائرنگ کرنے والے شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ فائرنگ کے اس واقعے میں متعدد افریقی مہاجرین زخمی ہوئے ہیں۔
اشتہار
اٹلی کے وسطی شہر ماچیراٹا میں جو شخص ایک چلتی موٹر کار میں سے لوگوں پر فائرنگ کرتا رہا تھا، اُس کو دو گھنٹے کی تلاش کے بعد پولیس نے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس شخص کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے نصف درجن افراد غیر ملکی مہاجرین ہیں۔ زخمیوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ حکام کے مطابق زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق افریقی ملکوں سے ہے۔
آج بروز ہفتہ فائرنگ کی اطلاع ملنے کے بعد سے انتظامی حکام نے ماچیراٹا کے لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کی تلقین کی تھی۔ اسی شہر ماچیراٹا میں چند روز قبل ایک اٹھارہ سال اطالوی لڑکی کی نعش بھی ملی تھی۔
اس لڑکی کے قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں انتیس برس کا ایک نائجیرین تارک وطن پولیس کی حراست میں ہے۔ مذکورہ ملزم کی پناہ کی درخواست حکام نے مسترد کر دی تھی۔ اس لڑکی کے قتل کے بعد سے ماچیراٹا میں بعض مقامی اطالوی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔
مقامی پولیس نے ماچیراٹا میں فائرنگ کرنے والے ایک سفید فام اطالوی شہری کو حراست میں لے لیا ہے۔ اس کی عمر اٹھائیس برس بتائی گئی ہے۔ سرکاری اطالوی ٹیلی وژن چینل Rai کے مطابق فائرنگ کرنے والے شخص کا تعلق ماچیراٹا سے ہے۔
مقامی میڈیا اور عینی شاہدین کے مطابق گاڑی پر سوار شخص نے خصوصاً افریقی مہاجرین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ زخمی ہونے والے افریقی مہاجرین کو کتنے گہرے زخم آئے ہیں۔
پولیس نے اس بلااشتعال فائرنگ کے محرکات کی تفصیل بھی جاری نہیں کی ہے۔ مقامی پولیس مشتبہ شخص سے گرفتاری کے بعد پوچھ گچھ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔