اٹلی نے سمندر میں پھنسے تارکین وطن کو اترنے کی اجازت دے دی
7 جولائی 2020
گزشتہ ایک ہفتے کے زائد عرصے سے سمندر میں پھنسے تقریباً دو سو تارکین وطن کو اٹلی نے اپنے شہر سسلی کے ساحل پراترنے کی اجازت دے دی ہے۔
اشتہار
امدادی جہاز 'اوشیئن وائیکنگ' پر سوار پناہ کے متلاشی تقریباً 180 تارکین وطن گزشتہ نو روز سے سمندر میں بھٹک رہے تھے اورحالات سے پریشان بعض مہاجرین نے خود کشی کی بھی کوششیں کی تھیں۔
یورپ کے معروف خیراتی ادارے ایس او ایس میڈیٹیریئن کا کہنا ہے کہ اٹلی نے اس کے امدادی جہاز 'اوشیئن وائیکنگ' پر ان 180 تارکین وطن کو اپنے شہر سسلی میں اترنے کی اجازت دے دی جو گزشتہ کئی روز سے سمندر میں پھنسے ہوئے تھے۔ امدادی ادارے 'ایس او ایس میڈیٹیریئن' نے ہی اس جہاز کا انتظام اور خرچ برداشت کیا تھا۔
اٹلی کے شہر سسلی کی بندرگاہ ایمپیڈوکل پر مہاجرین کو کشتی سے اتر کر باہر آتے ہوئے دیکھا گیا۔ پناہ کے متلاشی یہ افراد نو روز سے کشتی میں سوار تھے اور ان کی حالات دن بدن ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ اس سے قبل جہاز نے مالٹا اور اٹلی کی سات مختلف بندر گاہوں پر کشتی کو روکنے اور پریشان حال مہاجرین کو اتارنے کی اجازت طلب کی تاہم اسے کہیں بھی اجازت نہیں ملی تھی۔ گزشتہ ہفتے ایس او ایس میڈیٹیریئن نے اس سے متعلق ایک بیان میں کہا تھا کہ جو تارکین وطن جہاز میں سوار ہیں وہ اس قدر پریشان ہوچکے ہیں کہ ان میں سے کئی نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔
ادارے نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ان افراد کو تو اٹلی میں اترنے کی اجازت مل گئی تاہم دوسری کشتی تالیہ میں سوار لوگ اب بھی بھٹک رہے ہیں اور انہیں بھی اترنے کی اجازت ملنی چاہیے۔، ''پورا دن کھڑے رہنے کے بعد بالآخر جہاز میں سوار 180 افراد اتر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے ہماری مدد اور حمایت کرنے والوں کا بہت بہت شکریہ۔ ہم یورپی یونین پر زور دیتے ہیں کہ وہ تالیہ میں سوار افراد کے لیے بھی فوری طور پر اترنے کا کوئی انتظام کریں۔''
جن تارکین وطن کو اٹلی میں اترنے کی اجازت ملی ہے وہ لیبیا سے چلے تھے اور اوشیئن وائیکنگ نے سمندر میں ڈوبنے سے انہیں بچانے کے لیے اپنی کشتی میں سوار کیا تھا۔ اس میں بنگلہ دیش، پاکستان، ایریٹیریا، نائیجیریا اور بعض شمالی افریقی ممالک کے لوگ شامل ہیں۔ اس میں دو
خواتین سمیت 25 کم عمر کے بچے ہیں جبکہ ایک خاتون حمل سے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ان تمام مہاجرین کو دو ہفتوں کے لیے اٹلی کی ایک کشتی 'موبی زارا' میں قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔ اسی کشتی میں پہلے بھی 169 افراد کے ایک دوسرے گروپ کو قرنطینہ کیا گیا تھا اور انہیں بھی اوشیئن وائیکنگ نے بچایا تھا۔
ص ز / ج ا (ایجنسیاں)
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔