اریٹریا سے تعلق رکھنے والا ایک 22 سالہ نوجوان تارک وطن اٹلی میں انتقال کر گیا۔ بتایا گیا ہےکہ اس کی انتقال کی وجہ لیبیا میں اسے درپیش انتہائی غیرانسانی سلوک تھا۔
اشتہار
حکام کا کہنا ہے کہ 22 سالہ تارک وطن کے انتقال کی وجہ تپ دق بنی، جو لیبیا میں خوراک کی قلت اور انتہائی غیرانسانی سلوک کی وجہ سے شدت اختیار کر گئی تھی۔ اس نوجوان کو بحیرہ روم میں ریسکیو کر کے اٹلی پہنچا گیا تھا، تاہم یہ جانبر نہ ہو سکا۔
ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو، ماہ رمضان ميں اکيلے پن کا احساس
بلقان روٹ کی بندش کے بعد مہاجرين کی اکثریت ليبيا کے راستے آج کل يورپ پہنچ رہی ہے، جہاں ان کی پہلی منزل اٹلی ہوتی ہے۔ ايک نيا ملک، نئی زبان اور نيا سماج، جانيے اٹلی کے جزيرے سسلی پر مسلمان مہاجرين رمضان کيسے گزار رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
انجان ملک ميں روزے رکھنا
رواں سال اب تک جتنے پناہ گزين يورپ پہنچے ہيں، ان کی پچاسی فيصد تعداد اٹلی ميں موجود ہے۔ ان میں سے اکثريت کا تعلق مسلم ممالک سے ہے اور ہزاروں کے ليے ايک انجان ملک اور معاشرے ميں يہ ان کا پہلا رمضان ہے۔ رمضان ميں مذہبی ذمہ داريوں کو پورا کرنے کے سلسلے ميں مہاجرين کو سماجی مسائل کا سامنا ہے کيونکہ يہ سب ان کے ليے بالکل نيا ہے۔ تاہم سسلی ميں کتانيا کی مسجد الرحمان بہت سوں کے ليے سکون کی آغوش ہے۔
تصویر: DW/D.Cupolo
يورپی طور طريقے سيکھنا
رمضان ميں سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کھايا، پيا نہيں جا سکتا ليکن روزے کا مقصد صرف يہی نہيں۔ مسلمان اس ماہ زيادہ سے زيادہ نيکياں کمانے کی کوشش کرتے ہيں۔ نائجيريا سے اٹلی پہنچ کر سولہ سالہ گلاڈيما کو احساس ہوا کہ يہاں کا طرز زندگی کس قدر مختلف ہے۔ اس نے کہا، ’’یورپ کے بارے ميں سب سے حيران کن بات يہ ہے کہ آپ کئی ماہ تک ان ہی افراد کو سڑکوں پر ديکھ سکتے ہيں ليکن آپ ان کے نام تک نہيں جان سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
طويل روزے
مسلم ممالک سے پہلی دفعہ يورپ ميں آنے والے ان پناہ گزينوں کے ليے ایک بڑی تبديلی يہاں کا معاشرہ ہی نہيں بلکہ يہاں کا جغرافيہ بھی ہے۔ خطِ استوا سے زيادہ فاصلے کا مطلب ہے کہ یہاں گرمیوں میں دن کا دورانيہ زيادہ طويل ہوتا ہے اور نتيجتاً روزے کا دورانيہ بھی۔ گلاڈيما کہتا ہے، ’’ميں يہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ کوئی رات تين بجے سے اگلے دن رات آٹھ بجے تک روزہ رکھے۔ اب ميں اتنا طويل روزہ رکھ رہاں ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
بڑھتی ہوئی بنگلہ ديشی برادری
براعظم افريقہ کے مختلف حصوں سے پناہ گزين يورپ پہنچنے کے ليے ليبيا کا راستہ اختيار کرتے آئے ہيں۔ اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق اب بڑی تعداد ميں بنگلہ ديشی تارکين وطن بھی يہی راستہ اختيار کر رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف زبانوں ميں قرآن دستياب
سسلی بحيرہ روم کا سب سے بڑا جزيرہ اور اٹلی کا خود مختار علاقہ ہے۔ دنيا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کی آمد کے تناظر ميں وہاں مسجد الرحمان کے مولوی نے مختلف زبانوں ميں قرآن پاک کی دستيابی کو يقينی بنايا ہے۔ مراکش نژاد مولوی بتاتے ہيں کہ ان کی مسجد ميں نماز ادا کرنے کے ليے دنيا بھر سے ہر شہريت کے لوگ آتے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف ثقافت و سماج
’’مسجد ميں ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان ہے ليکن جب ميں سڑکوں پر ہوتا ہوں، تو لگتا ہے کہ يوں ہی کوئی عام سا دن ہے،‘‘ اٹھائيس سالہ پاکستانی تارک وطن خان کہتا ہے۔ اس کے بقول يہاں کا معاشرہ بہت مختلف ہے اور بالکل اسلامی نہيں۔ وہ مزيد کہتا ہے، ’’ميں مسيحی نہيں ليکن جب تک ہم سب ايک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پيش آتے رہيں، اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ آپ کس مذہب کے ماننے والے ہيں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
فراغت نہ ہونے کے برابر
جنوبی اٹلی ميں عام طور پر دکانيں شام کے وقت جلد بند ہو جاتی ہيں۔ سہ پہر کے وقت کھانے کا وقفہ بھی معمول کی بات ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ ديشی دکان دار زيادہ دير تک کام کرتے رہتے ہيں، خواہ کوئی بھی موسم اور کوئی بھی وقت ہو۔ پچيس سالہ مومن معتوبر کہتا ہے، ’’ہم تھکے ہوئے ہوں تو بھی اپنی دکان کھلی رکھتے ہيں اور کام کاج کرتے رہتے ہيں۔ رمضان ميں بھی يہ معمول مشکل نہيں کيونکہ يہ تو ہمارا مذہب ہے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
روايتی کھانے اور افطار
بہت سے تارکين وطن کے ليے رمضان ايک وقت بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے آبائی علاقوں کے کھانے اور روايتی اسلامی طريقہ ہائے کار سے افطار کرنا چاہتے ہيں۔ ليکن سماجی انضمام کو فروغ دينے کے ليے کام کرنے والے اسمائيل جامع کا کہنا ہے کہ بيرون ملک رمضان کا مطلب يہ بھی ہے کہ لوگ نئے کھانے اور نئی روايات کو موقع ديں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
برکتوں کے مہينے ميں اکيلے پن کا احساس
ليبيا کے راستے حال ہی ميں اٹلی پہنچنے والے نوجوان مالا کا کہنا ہے، ’’آج کل رمضان جاری ہے۔ جب ميں اپنے گھر کو ياد کرتا ہوں تو خود کو بہت اکيلا محسوس کرتا ہوں۔‘‘ مالا کا يہ اپنے اہل خانہ کے بغير پہلا رمضان ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ہم تو يہاں آمد پر ہی اجنبی ہيں ليکن اس ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو اکيلے پن کا احساس ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لیبیا سے ایک کشتی کے ذریعے دیگر تارکین وطن کے ہم راہ بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران مہاجرین کی کشتی کو ریسکیو کیا گیا تھا، تاہم اس پر سوار ایک نوجوان کی حالت تشویش ناک تھی۔
حالیہ کچھ برسوں میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد نے لیبیا سے بحیرہء روم کے ذریعے اٹلی تک کا خطرناک سفر اختیار کیا ہے۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایسے افراد جو اس سفر میں بحیرہء روم میں ڈوبنے سے بچ گئے وہ بھی نہایت بری حالت میں اٹلی پہنچے۔
ہسپانوی خیراتی ادارے پروایکٹیوا اوپن ارمز نے بحیرہء روم میں ایک ریسکیو آپریشن کر کے 93 تارکین وطن کو بچایا تھا، جنہیں اٹلی منتقل کیا گیا تھا۔ روئٹرز کے مطابق ان تارکین وطن میں اریٹریا سے تعلق رکھنے والا ایک تارک وطن زیگن بھی شامل تھا (اس تارک وطن کا پورا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے)، جسے اطالوی ساحلی علاقے سیسلی منتقل کیا گیا تھا۔
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
7 تصاویر1 | 7
بتایا گیا ہے کہ پانچ فٹ سات انچ قامت کے اس نوجوان کا وزن فقط 35 کلوگرام تھا اور اسے حرکت کے لیے بھی سہارے کی ضرورت تھی۔ روئٹرز کے مطابق اسی حالت میں اسے ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ بارہ گھنٹے سے بھی کم جی پایا۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اس نوجوان کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا، جیسے یہ کسی اذیتی مرکز سے آیا ہو۔ طبی حکام کا کہنا ہے کہ پیر کے روز اٹلی لائے گئے تمام تارکین وطن جسمانی طور پر انتہائی نحیف تھے اور ہڈیوں کا ڈھانچا بنے ہوئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے تین کی حالت اتنی تشویش ناک تھی کہ انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں بھی بحیرہء روم سے ریسکیو کیا جانے والا ایک تین ماہ کا بچہ خوراک کی شدید قلت کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا۔