اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کر گئی
شمشیر حیدر7 مئی 2016
اطالوی بحریہ کا کہنا ہے کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد تیس ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے مزید اٹھارہ سو تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا۔
اشتہار
یہ تارکین وطن لیبیا کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی کے سفر پر نکلے تھے۔ اطالوی ساحلی محافظوں، کسٹمز پولیس، فرنٹیکس اور ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے باہمی تعاون سے بحیرہ روم میں دس مختلف آپریشنز کیے گئے جن کے دوران اٹھارہ سو سے زائد تارکین وطن کو سمندر کے کھلے پانیوں میں تلاش کر کے انہیں بچا لیا گیا۔
ان مزید نئے تارکین وطن کی اٹلی آمد کے بعد یکم جنوری سے اب تک اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی مجموعی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں معمولی اضافہ بھی یورپ میں پہلے سے پائے جانے والے ایسے خدشات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد بحیرہ روم کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔
ان خدشات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپ اور ترکی کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے پر عمل درآمد کے بعد ترکی سے یونان پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی ہونے کے بعد تارکین وطن یورپ پہنچنے کے لیے دوسرے راستوں کی تلاش میں ہیں۔
تاہم روم حکام اور امدادی سرگرمیوں میں مصروف دیگر اداروں کا کہنا ہے کہ اٹلی کا رخ کرنے والے مہاجرین و تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے کا کوئی ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ لیبیا میں موجود تجزیہ نگاروں کا بھی کہنا ہے کہ لیبیا میں رہنے والے لاکھوں تارکین وطن کافی عرصے سے وہاں آباد ہیں اور اس بات کے امکانات کافی کم ہیں کہ وہ بحیرہ روم کا طویل اور خطرناک سفر کر کے یورپ کا رخ کریں گے۔
دوسری جانب آسٹریا ابھی تک اٹلی سے متصل سرحد پر بارڈر کنٹرول متعارف کرنے کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اٹلی اور آسٹریا کی سرحد ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں ملتی ہے۔ برینر نامی یہ سرحدی گزرگاہ اٹلی کے لیے تجارتی اور معاشی نقطہ نگاہ سے نہایت اہم ہے۔
یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے آسٹریا کے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ اگر اٹلی سے متصل سرحد پر بارڈر کنٹرول متعارف کرایا گیا تو یہ یورپی یونین کے لیے نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘