اٹلی کا انکار، مہاجرین کی ایک اور کشتی سپین میں لنگر نداز
9 اگست 2018
اٹلی کی طرف سے انکار کے بعد مہاجرین کی ایک کشتی بالآخر سپین کی ایک بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گئی ہے۔ بحیرہ روم میں موجود یہ کشتی گزشتہ کئی دنوں سے کسی بندر گاہ پر لنگر اندز ہونے کی خاطر اجازت طلب تھی۔
اشتہار
ہسپانوی غیر سرکاری ادارے ’پروایکٹیو اوپن آرمز‘ کی یہ کشتی خلیج جبرالٹر کے قریب واقع سان روخے کی بندر گاہ پر مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجکر بیس منٹ پر لنگرانداز ہوئی۔ اس کشتی میں سوار زیادہ تر مہاجرین کا تعلق دارفورسمیت سوڈان سے تھا۔
ان مہاجرین کو دو اگست کو بحیرہ روم سے ریسکیو کیا گیا تھا۔ امدادی کارکنوں کے مطابق یہ لوگ چھوٹی کشتیوں پر بے یارومددگار پچاس گھنٹے تک بحیرہ روم کی پانیوں میں موجود تھے، جب انہیں بچایا گیا تھا۔ اس دوران ان کے پاس پینے کا پانی بھی نہیں تھا۔
’پروایکٹیو اوپن آرمز‘ کے مطابق جب ان مہاجرین کو ریسیکیو کیا گیا تھا تو ان کے بدن ایندھن کے مکسچر اور سمندری پانی کی وجہ سے جل چکے تھے۔ اس گروپ میں 75 مرد جبکہ بارہ لڑکے شامل تھے۔ اس امدادی ادارے کے مطابق لیبیا سے یورپ روانہ ہونے سے قبل بھی ان میں سے متعدد افراد کو انسانوں کے اسمگلروں نے مسلسل زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
حالیہ عرصے میں اٹلی کی حکومت نے مہاجرین کی آمد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے اب افریقہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سپین کی سرزمین پر پہنچیں۔
رواں برس اسی سمندری راستے سے سپین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تئیس ہزار سات سو ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے اعدادوشمار کے مطابق اس کوشش میں کم ازکم 307 افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دو مہینوں کے دوران مہاجرین کی یہ تیسری کشتی ہے، جو سپین لنگر انداز ہوئی ہے۔ مالٹا اور اٹلی کی حکومتوں نے ان کشتیوں کو اپنی اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس وجہ سے سپین کی سوشلسٹ حکومت نے انہیں خوش آمدید کہا۔
میڈرڈ حکومت نے کہا ہے کہ جمعرات کے دن سپین پہنچنے والے مہاجرین کو ویسے ہی طبی مدد اور دیگر مراعات دی جائیں گی، جیسا کہ ملک میں پہنچنے والے دیگر تارکین وطن اور مہاجرین کو فراہم کی جاتی ہیں۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔