اٹلی کا دباؤ، امدادی جہاز اکوئیریس ٹو کی رجسٹریشن منسوخ
24 ستمبر 2018
پاناما حکام نے مہاجرین کے لیے امدادی کارروائیاں کرنے والے بحیرہ روم میں موجود ایکوئیریس ٹو نامی آخری بحری جہاز کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ فلاحی تنظیموں کے مطابق اس اقدام کی ذمہ دار اطالوی حکومت ہے۔
اشتہار
ایکوئیریس دوئم وسطی بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیوں کی گزرگاہ پر امدادی کارروائیاں انجام دینے والا اپنی نوعیت کا آخری بحری جہاز ہے۔
اس جہاز کی انتظامیہ کو اتوار کے روز پاناما میری ٹائم اتھارٹی یا ’پی ایم اے‘ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔
اس اقدام سے لیبیا کے ساحل سے دور مہاجرین کے لیےکی جانے والی تمام امدادی کارروائیوں پر اثر پڑے گا تاوقتيکہ یہ جہاز کسی اور نام سے رجسٹر نہیں ہوتا۔
ایکوئیریس ٹو کو چلانے والی فلاحی تنظیموں میں سے ایک ’ایس او ایس میڈیٹیرینی‘ نے پاناما حکومت کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اسے روم حکومت کی جانب سے دباؤ کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں اس تنظیم نے کہا،’’ ہفتے کے روز پاناما حکومت کی جانب سے ملنے والے اس پیغام کو جان کر بہت حیرت ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ اطالوی حکام نے پی ایم اے کو ایکوئیریس کے خلاف فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
یہ بحری جہاز فی الوقت امدادی کارروائیوں کے نتیجے میں بچائے جانے والے اٹھاون مہاجرین سمیت سمندر ہی میں ہے اور بندرگاہ پہنچنے پر اسے ڈی فلیگ کر دیا جائے گا۔
ایس او ایس میڈیٹیرینی نے اپنی شریک کار فلاحی تنظیم ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے ساتھ مل کر یورپی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاناما حکومت پر زور دیں کہ یا تو ایکوئیریس دوئم کی رجسٹریشن بحال کی جائے اور یا پھر اسے نیا فلیگ جاری کیا جائے۔
دوسری جانب اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی نے اس بات سے واضح طور پر انکار کیا ہے کہ اٹلی نے امدادی بحری جہاز ایکوئیریس کی رجسٹریشن منسوخ کرانے کے لیے پاناما حکومت پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا ہے۔
سالوینی نے ایک ٹویٹ میں کہا،’’ مجھے تو پاناما کا ایریا کوڈ تک نہيں پتہ۔‘‘
پاناما میری ٹائم اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے اٹلی کی جانب سے جہاز کے کپتان کے خلاف شکایت سامنے آنے کے بعد یہ اقدام اٹھایا ہے۔ اس شکایت میں کہا گیا تھا کہ جہاز کے کپتان نے مبینہ طور پر لیبیا کے کوسٹ گارڈ کے ساتھ تعاون کرنے اور جہاز میں موجود تارکین وطن کو لیبیا واپس بھیجنے سے غیر قانونی طور پر انکار کیا تھا۔
خیال رہے کہ سالوینی مہاجرین کے حوالے سے بہت سخت موقف رکھتے ہیں۔ کٹر نظریات کے حامل اطالوی وزیر داخلہ سالوینی کا کہنا ہے کہ وہ اٹلی کو ’مہاجر کیمپ‘ نہیں بننے دیں گے۔
ص ح / ع س/ نیوز ایجنسی
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔