اٹلی کی بندرگاہیں غیر ملکی امدادی بحری جہازوں پر بھی بند
9 جولائی 2018
اٹلی نے کہا ہے بحیرہ روم میں مہاجرین کو ڈوبنے سے بچانے والے غیر ملکی بحری جہازوں کو اطالوی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سے قبل اٹلی فلاحی تنظیموں کے جہازوں پر بھی ایسی ہی پابندی لگا چکا ہے۔
اشتہار
یورپی یونین ممالک کے غیر ملکی بحری جہاز اور نیٹو کے سپانسر کردہ امدادی مشن عموماﹰ سمندر میں ڈوبنے والے تارکین وطن کو اٹلی کے ساحلوں پر منتقل کیا کرتے ہیں۔
اتوار آٹھ جولائی کو آئر لینڈ کی بحریہ کا ایک جہاز ’سیموئیل بکٹ‘ ایک سو چھ مہاجرین کو لے کر سِسلی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔
اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی نے سوشل میڈیا پر اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ آسٹریا میں ہونے والی یورپی یونین سمٹ میں اپنے ہم منصب افراد کو اس اقدام سے آگاہ کر دیں گے۔
سالوینی نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں تحریر کیا،’’بدقسمتی سے اٹلی نے گزشتہ پانچ برسوں میں کچھ معاہدوں پر دستخط کیے۔ جن کے بدلے میں کچھ نہیں مانگا گیا۔ اسی لیے مہاجرین کے بحری جہاز انہیں لے کر اٹلی کی بندرگاہوں پر پہنچتے ہیں۔ لیکن ہماری حکومت میں یہ مشق دہرائی نہیں جائے گی۔‘‘
سالوینی نے تو اپنی پوسٹ میں نیٹو یا یورپی یونین ممالک میں سےکسی مشن کے جہاز کا نام لے کر تذکرہ نہیں کیا تاہم اطالوی وزیر ٹرانسپورٹ ڈینیلو تونینیلی نے ایک ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے کہ روم حکومت یورپی یونین کے آپریشن ’صوفیہ‘ کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرے گی۔
تونینیلی کے ٹویٹ پیغام کے مطابق،’’ہم قواعد وضوابط کا احترام کرتے ہیں لیکن اب انہیں تبدیل کیا جائے گا۔ مہاجرت محض اٹلی کا مسئلہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
رواں برس اب تک اٹلی آنے والے مہاجرین کی تعداد میں گزشتہ سال اسی عرصے کی نسبت اسّی فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جنوری سے لے کر اب تک ان تارکین وطن کی تعداد سولہ ہزار چھ سو رہی۔
حالیہ برسوں میں یورپ آنے والے مہاجرین کا سب سے زیادہ بوجھ بحیرہ روم پر واقع ممالک اٹلی اور یونان نے اٹھایا ہے۔ اٹلی پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن شمالی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔
صائمہ حیدر/ ا ا/ نیوز ایجنسی
اطالوی پہاڑوں کی آغوش ميں ايک نئی زندگی کا آغاز
جنوبی اٹلی ميں اسپرومونٹے پہاڑی سلسلے کی آغوش ميں ايک چھوٹا سا گاؤں جو کبھی تاريکی اور خاموشی کا مرکز تھا، آج نوجوانوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ سانت آليسيو ميں اس رونق کا سبب پناہ گزين ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
گمنامی کی طرف بڑھتا ہوا ايک انجان گاؤں
کچھ برس قبل تک سانت آليسيو کی کُل آبادی 330 افراد پر مشتمل تھی۔ ان ميں بھی اکثريت بوڑھے افراد کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بلاکوں کی مدد سے بنی ہوئی تنگ گلياں اکثر وبيشتر خالی دکھائی ديتی تھيں اور مکانات بھی خستہ حال ہوتے جا رہے تھے۔ گاؤں کے زيادہ تر لوگ ملازمت کے بہتر مواقع کی تلاش ميں آس پاس کے بڑے شہر منتقل ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
نئے مہمان، نئی رونقيں
سن 2014 ميں سانت آليسيو کی کونسل نے قومی سطح کے ’پروٹيکشن سسٹم فار ازائلم سيکرز اينڈ ريفيوجيز‘ (SPRAR) نامی نيٹ ورک کے تحت مہاجرين کو خالی مکانات کرائے پر دينا شروع کيے۔ آٹھ مکانات کو قريب پينتيس مہاجرين کو ديا گيا اور صرف يہ ہی نہيں بلکہ ان کے ليے زبان کی تربيت، سماجی انضام کے ليے سرگرميوں، کھانے پکانے اور ڈانس کلاسز کا انتظام بھی کيا گيا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ايک منفرد منصوبہ
يہ ايک خصوصی منصوبہ ہے، جس کے تحت ان افراد کو پناہ دی جا رہی ہے، جو انتہائی نازک حالات سے درچار ہيں۔ ان ميں ماضی میں جسم فروشی کی شکار بننے والی عورتيں، ايچ آئی وی وائرس کے مريض، ذيابيطس کے مرض ميں مبتلا افراد اور چند ايسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے دوران کوئی گہرا صدمہ برداشت کیا ہے یا زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ميئر اسٹيفانو کالابرو بھی خوش، لوگ بھی خوش
سانتا ليسيو کے ميئر اسٹيفانو کالابرو کا کہنا ہے کہ ان کا مشن رحم دلی پر مبنی ہے اور انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی فوائد بھی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
دو طرفہ فوائد
رياست کی طرف سے ہر مہاجر کے ليے يوميہ پينتاليس يورو ديے جاتے ہيں۔ يہ رقم انہیں سہوليات فراہم کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سانت آليسيو ميں سولہ لوگوں کو ملازمت مل گئی ہے، جن ميں سات افراد مقامی ہيں۔ سروسز کی فراہمی کے ليے ملنے والی رقوم کی مدد سے گاؤں کا جم ( ورزش کا کلب) واپس کھول ديا گيا ہے اور اس کے علاوہ ايک چھوٹی سپر مارکيٹ اور ديگر چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی بندش سے بچ گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
سانت آليسيو کے ليے نئی اميد
مقامی افراد اس پيش رفت سے خوش دکھائی ديتے ہيں۔ نواسی سالہ انتوونيو ساکا کہتے ہيں کہ وہ اپنے نئے پڑوسيوں سے مطمئن ہيں۔ ساکا کے بقول وہ اپنی زندگياں خاموشی سے گزارتے ہيں ليکن ديگر افراد کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا ہے اور کام کاج ميں بھی لوگوں کا ہاتھ بٹاتے ہيں۔ سيليسٹينا بوريلو کہتی ہيں کہ گاؤں خالی ہو رہا تھا اور عنقريب مکمل طور پر خالی ہو جاتا، مگر مہاجرين نے اسے دوبارہ آباد کر ديا ہے۔