اٹھارہویں ترمیم کے خاتمہ کی باتیں اور ممکنہ ردِعمل
عبدالستار، اسلام آباد
27 ستمبر 2018
پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ختم کیا گیا تو ملک بھر میں اس کے خلاف سخت ردِ عمل سامنے آئے گا اور سیاسی جماعتیں ایسے فیصلے کے خلاف بھر پور مزاحمت کریں گی۔
اشتہار
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کل بروز بدھ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پارٹی کسی صورت اٹھارہویں ترمیم کو ختم ہونے نہیں دے گی۔ آئینی ماہرین کے خیال میں اس ترمیم سے صوبوں کو وفاق کے مقابلے میں بہت زیادہ اختیارات مل گئے ہیں، جسے ملک کی طاقت ور ترین اسٹیبلشمٹ اچھا نہیں سمجھتی۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ ریاست کے طاقت ور عناصر کی خواہش ہے کہ اس ترمیم کو واپس کیا جائے۔
کئی سیاسی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پی پی پی کے خلاف مقدمہ بازی بھی اسی لیے ہو رہی ہے کہ وہ اس ترمیم کا ہر پلیٹ فارم پر دفاع کرتی ہے۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق وزیرمملکت برائے صنعتی پیداوارآیت اللہ درانی کا کہنا ہے کہ کچھ قوتیں پارٹی پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرے، ’’ہم پر اس لیے مقدمات بن رہے ہیں کیونکہ ہم نے آئین کی اٹھارہویں ترمیم لا کر اور صوبوں کو اختیارات دے کر کچھ عناصر کی نظر میں بہت بڑا گناہ کیا تھا۔ ایسے عناصر نے ہمیشہ پارٹی پر دباؤ ڈالا ہے۔ جب پارٹی دباؤ میں نہیں آئی، تو پہلے بھٹو صاحب کو شہید کیا گیا اور پھر بے نظیر صاحبہ کو۔ لیکن پارٹی یہ بات واضح کرنا چاہتی ہے کہ ہم کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔ اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ وفاق کو کمزور کرنے کا عمل ہوگا، جس کی ہم بھر پور مخالفت کریں گے۔‘‘
پاکستان میں قوم پرستوں کو ہمیشہ شکوہ رہا ہے کہ ریاست مرکزیت پسند رہی ہے۔ اس شکوے کے پیش نظر پی پی پی کی پچھلی حکومت نے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی تھی۔ کئی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ یہ ترمیم پاکستان کی مضبوطی کی علامت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کا کہنا ہے کہ جس نے اٹھارہویں ترمیم کو ختم کیا گویا اس نے ملک توڑا،’’صوبوں اور وفاقی اکائیوں کو اختیارات دینے سے ممالک مضبوط ہوتے ہیں۔ عملی طور پر تو وفاقی حکومت نے اٹھارہویں ترمیم کو ختم کر دیا ہے لیکن یہ تحریری طور پر ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے کچھ طاقتور عناصر کی طرف سے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نہ صرف اٹھارہویں ترمیم کا بھر پور دفاع کرے گی بلکہ اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کے لیے بھی بھر پور کوششیں کرے گی۔‘‘
کس جماعت کو کتنے پاکستانیوں نے ووٹ دیے؟
پاکستان کی قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے تحریک انصاف سب سے نمایاں رہی۔ ملک بھر میں ووٹرز کی تعداد قریب 106 ملین تھی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس جماعت کو ملک بھر سے کتنے ووٹ ملے۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
1۔ پاکستان تحریک انصاف
قومی اسمبلی میں 116 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملک بھر سے 16.8 ملین ووٹرز کا اعتماد حاصل ہوا۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی پنجاب سے 11.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے، سندھ سے 1.5 ملین ووٹوں کے ساتھ تیسرے، خیبر پختونخوا سے 2.1 ملین ووٹوں کے ساتھ پہلے جب کہ بلوچستان میں ایک لاکھ نو ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad
2۔ پاکستان مسلم لیگ نون
پاکستان مسلم لیگ نون قومی اسمبلی کی محض 64 نشستیں حاصل کر پائی لیکن ملک بھر سے 12.9 ملین افراد نے اس جماعت کو ووٹ دیے تھے۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی ایم ایل این پنجاب سے 10.5 ملین ووٹوں کے ساتھ دوسرے، سندھ سے 2 لاکھ 37 ہزار ووٹوں کے ساتھ آٹھویں، خیبر پختونخوا سے 6 لاکھ 43 ہزار ووٹوں کے ساتھ پانچویں اور بلوچستان سے قریب 29 ہزار ووٹ حاصل کر کے گیارہویں نمبر پر رہی۔
تصویر: Reuters/M. Raza
3۔ پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی 6.9 ملین ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہی۔ صوبائی اسمبلیوں میں پی پی پی کو سب سے زیادہ 3.8 ملین ووٹ سندھ میں ملے جہاں اسے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ جماعت پنجاب میں 1.8 ملین ووٹ حاصل کر کے چوتھے، خیبر پختونخوا میں قریب ساٹھ لاکھ ووٹوں کے ساتھ چھٹے اور بلوچستان میں 57 ہزار ووٹوں کے ساتھ نوویں نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/R. Saeed
4۔ آزاد امیدوار
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں درجنوں امیدوار آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہوئے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے والوں کو مجموعی طور پر چھ ملین سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
5۔ متحدہ مجلس عمل پاکستان
مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ملک بھر سے 2.5 ملین ووٹ حاصل کیے اور اس اعتبار سے چوتھی بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔ صوبائی اسمبلیوں میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے ایم ایم اے خیبر پختونخوا میں دوسرے، بلوچستان میں تیسرے، سندھ میں چوتھے اور پنجاب میں چھٹے نمبر پر رہی۔
تصویر: DW/U. Fatima
6۔ تحریک لبیک پاکستان
تحریک لبیک پاکستان سندھ میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کے علاوہ کوئی اور نشست حاصل نہیں کر پائی تاہم قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اسے ملک بھر سے قریب 2.2 ملین ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے ٹی ایل پی کو چار لاکھ ووٹ ملے اور یہ ساتویں نمبر پر رہی۔ پنجاب میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ثابت ہوئی جسے 1.8 ملین ووٹ ملے تاہم وہ یہاں سے کوئی ایک نشست بھی نہ جیت پائی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
7۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس
گرینڈ ڈیموکرٹک الائنس صوبہ سندھ میں متحرک تھی اس جماعت کو قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 1.25 ملین ووٹ حاصل ہوئے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں کو 1.5 ملین ووٹ ملے۔
تصویر: DW/U. Fatima
8۔ عوامی نیشنل پارٹی
قومی اسمبلی کے لیے ووٹوں کی تعداد کے حوالے سے اے این پی ساتویں بڑی سیاسی طاقت رہی جسے 8 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ووٹ دیے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے 8 لاکھ ووٹ حاصل کر کے اس صوبے میں اے این پی تیسری بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی۔
تصویر: DW/Faridullah Khan
9۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قومی اسمبلی کی نشستوں کے امیدواروں کو 7 لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ سندھ اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدوار 7 لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر رہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
10۔ پاکستان مسلم لیگ
پاکستان مسلم لیگ کے قومی اسمبلی کے امیدوار 5 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر پائے۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پی ایم ایل قریب چار لاکھ ووٹ حاصل کر کے ساتویں نمبر پر رہی۔
تصویر: PR Department of Pakistan Muslim League
11۔ بلوچستان عوامی پارٹی
بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرنے والی بی اے پی نامی اس جماعت کو صوبائی اسمبلی کے لیے قریب ساڑھے چار لاکھ جب کہ قومی اسمبلی کے لیے 3 لاکھ ستر ہزار سے زائد ووٹ ملے۔
تصویر: Abdul Ghani Kakar
12۔ بلوچستان نیشنل پارٹی
بلوچستان نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے لیے امیدوار 2 لاکھ سے زائد ووٹرز کا اعتماد حاصل کر پائے جب کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو سوا لاکھ سے زائد ووٹ حاصل ہوئے۔
تصویر: DW/A.G. Kakar
13۔ اللہ اکبر تحریک
اللہ اکبر تحریک کو حافظ سعید کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ جماعت قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہ کرپائی تاہم قومی اسمبلی کے لیے اس جماعت کے امیدواروں نے ملک بھر سے ایک لاکھ ستر ہزار ووٹ حاصل کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
13 تصاویر1 | 13
ان کا کہنا تھا کہ وفاق اس ترمیم کو مسئلہ سمجھنے کے بجائے ٹیکسوں کی وصولی بہتر کرے،’’اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں نے ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنایا ہے۔ سندھ میں سیلز ٹیکس چھ ارب سے بڑھ کر نوے ارب ہوگیا ہے اور یہاں کارپویٹ ٹیکس کی مد میں حکومت دو کھرب روپیہ وصول نہیں کر پارہی۔ ٹیکس چوری، بجلی چوری اور گیس چوری کو نہیں روک پا رہی کیونکہ پارلیمنٹ میں سرمایہ داروں کے نمائندوں بیٹھے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ان مسائل کا ذمہ دار اٹھارہویں ترمیم کو سمجھتے ہیں، جو بالکل غلط ہے۔ اگر اٹھارہویں ترمیم ختم کی گئی تو پھر ملک نہیں چل پائے گا۔‘‘
پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس ترمیم کا خاتمہ بلوچستان اور دوسرے چھوٹے صوبوں میں کام کرنے والی وفاق پرست پارٹیوں کے لیے مشکلات کا ایک طوفان لے کر آئے گا۔ نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنما اسحاق بلوچ کے خیال میں اس ترمیم کو اگر ختم کیا گیا تو پورے ملک میں اس کا سخت ردِ عمل ہوگا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم آنے کے باوجود بھی صحت اور تعلیم سمیت کئی وزارتیں بنادی گئیں ہیں، جس کی کوئی قانونی اور آئینی گنجائش نہیں ہے۔ یہ شعبے اب صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں تو وفاق کیوں ان کی وزارتیں بنارہا ہے۔ دنیا بھر میں صوبوں کو اختیارات دینے کی باتیں ہورہی ہیں اور یہاں صوبوں سے یہ اختیارات چھیننے کی بات کی جارہی ہے۔ جو وفاق کے لیے بہت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔‘‘