1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اٹھا لو اِسے اور جو دل کرے وہ کرو‘

20 جون 2020

شام کی جیلوں میں جنسی تشدد وسیع پیمانے پر انتہائی ظالمانہ انداز میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کو عالمی سطح پر کم توجہ حاصل ہوئی ہے۔ جرمنی میں اس کے متاثرین انصاف کے طلب گار ہیں۔

Türkei Protest International Conscience Convoy in Hatay
تصویر: picture-alliance/AA/E. Turkoglu

جنگی حالات سے دوچار ملک شام میں زیادہ تر خواتین کے لیے جبر اور خوف کا سلسلہ ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ مرد فوجی گرفتار خواتین کے ساتھ انتہائی نامناسب برتاؤ شروع کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جیل پہنچنے پر مرد محافظین انہیں جبراً عریاں کر کے ان کے جسموں کے استحصال کے سلسلے کا آغاز کر دیتے ہیں۔ اسد حکومت کی جیلیں ہزاروں مقید خواتین کے لیے دوزخ سے کم نہیں ہیں۔ متاثرہ خواتین کی ان جیلوں میں ذہنی توڑ پھوڑ اتنی ہوئی کہ وہ اپنے خاندان اور کمیونٹی سے کٹ کر رہ گئیں۔

شامی حکومت کی جیلوں میں جنس کی بنیاد پر کیا جانے والا جبر اور تشدد ایک معمول کا فعل ہے جو بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ انٹرنیشنل قانون کی ماہر الیگزینڈرا لِلِی کیتھر کا کہنا ہے کہ میڈیا پر شامی حکومت کے اس جرم کو سب سے کم رپورٹ کیا گیا ہے۔ لِلِی کیتھر کے مطابق فضائی حملوں اور بمباری، مختلف قسم کے ہتھیاروں کا استعمال، ٹارچر اور داعش کے بارے میں رپورٹنگ تو کی جاتی رہی ہے لیکن سب سے کم خبریں خواتین کے ساتھ گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے جنسی تشدد کی سامنے آئی ہیں۔

کیتھر جرمن دارالحکومت برلن میں قائم یورپی مرکز برائے قانون اور انسانی حقوق (ECCHR) کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ایسے مظالم کرنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کبھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ کیتھر مزید کہتی ہیں کہ جیلوں میں جنسی تشدد کی شکار ہونے والی عورتیں ذہنی اور سماجی اعتبار سے تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔

’شام کی جیلیں خواتین قیدیوں کے لیے جہنم‘

04:31

This browser does not support the video element.

گزشتہ منگل کو الیگزینڈرا لِلِی کیتھر اور ان کی ECCHR میں کام کرنے والی ساتھی خواتین نے ایک مہم شروع کی ہے اور خیال کیا گیا ہے کہ یہ مہم صورت حال میں تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔ یورپی مرکز برائے قانون اور انسانی حقوق کی خواتین نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے جنسی تشدد کرنے والوں کے خلاف وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کو ایک درخواست دی ہے کہ اس تناظر میں عدالتی کارروائی شروع کی جائے۔

 اس شکایت کے اندراج میں شام سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جومانا سیف بھی شامل ہیں۔ اس شکایت میں جرمن مستیغیث اعلیٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ شام کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جمیل حسن اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے وارانٹ جاری کریں۔ اس کے علاوہ جنسی تشدد کی کارروائیوں کی منظم تفتیش کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ جرمنی دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے شام کی خفیہ ایجنسی کے دو سابق اہلکاروں کے خلاف مقدمہ شروع کر رکھا ہے۔ ان اہلکاروں کو جنگی جرائم سرزد کرنے پر آفاقی دائرہ اختیار کے اصول کے تحت عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ کسی اور ملک میں جرائم کرنے والوں کو آفاقی دائرہ اختیار کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے مختلف ممالک عدالتی کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں۔

یورپی مرکز برائے قانون اور انسانی حقوق کی خواتین نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں شامل کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ ان سرگرم خواتین کے مطابق اس امر کو نظرانداز کرنے کا فائدہ مبینہ مجرموں کو حاصل ہو گا اور یہ متاثرہ خواتین کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

اس تناظر میں الیگزینڈرا لِلِی کیتھر کا موقف ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے شام میں روا رکھا جانے والا جنسی تشدد منظم انداز میں شہری آبادیوں پر کیا جانے والا ٹارچر ہے اور جرمنی اس کو انسانیت کے خلاف جرم میں شمار کرے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل بھی ایسی رائے کی حمایت کرتی ہے۔ سن 2018 میں عالمی ادارے کی کونسل نے پانچ سو متاثرہ خواتین کی شہادتوں پر متحارب فریقوں، اسد حکومت کی فوج اور جنگی ملیشیا کو جنسی حملوں اور تشدد کا مرتکب قرار دیا تھا۔ کونسل کے مطابق شام میں جنسی تشدد کسی بھی خاتون یا مرد کے خلاف جبر و خوف اور ذلیل کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

لیزا ایلس (ع ح/ ا ا)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں