’میرا جسم تو راکھین ہی میں رہ گیا‘: روہنگیا خاتون کی کہانی
اینس پوہل (م۔ م)
19 اکتوبر 2018
اپنی جان بچانے کے لیے میانمار کی ریاست راکھین سے ہجرت سے پہلے فاطمہ کو کئی مرتبہ ریپ کیا گیا تھا۔ اب بنگلہ دیش میں ایک مہاجر کیمپ میں مقیم یہ روہنگیا مسلم خاتون کہتی ہے، ’’اپنا جسم تو میں راکھین ہی میں چھوڑ آئی تھی۔‘‘
اشتہار
فاطمہ کبھی روہنگیا مسلم اقلیتی برادری کے لاکھوں دیگر افراد کے ساتھ میانمار کی ریاست راکھین میں رہتی تھی۔ اب اس کا گھر ایک ایسا خیمہ ہے، جو بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی ایک عارضی بستی کا حصہ ہے۔ اس کے ماضی اور حال میں فرق صرف راکھین اور بنگلہ دیش میں ہونے یا اپنے گھر میں اور بے گھر ہونے کا ہی نہیں بلکہ کئی مرتبہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے اس المیے کا بھی ہے، جس کے بعد سے وہ کہتی ہے کہ اس کی شخصیت ٹکڑے ٹکڑے اور جسم اور روح جیسے علیحدہ علیحدہ ہیں۔
بنگلہ دیش کے ضلع کوکس بازار میں جہاں لاکھوں روہنگیا مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں، فاطمہ سے ملاقات کے لیے سفر کے دوران منظر نامے پر دور دور تک خیموں پر لگی پلاسٹک کی سفید شیٹیں نظر آ رہی تھیں اور ان پر ہونے والی تیز بارش کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ یہ ایک ایسا علاقہ تھا، جہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر گونجتی مؤذن کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی اور کیچڑ سے بھری مختلف چھوٹی چھوٹی وادیوں میں روہنگیا مہاجرین نظر آ رہے تھے۔
مسلم اقلیت
میانمار سے ایک مسلم نسلی اقلیت کے طور پر روہنگیا باشندوں کی طرف سے اپنی جانیں بچانے کے لیے ہجرت کا سلسلہ پرانا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ چند برس پہلے شروع ہوا اور گزشتہ برس اگست میں اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ تب صرف چند ماہ کے اندر اندر سات لاکھ سے زائد مسلم مرد اور خواتین جان لیوا تشدد سے بچنے کی کوششوں میں بے گھر ہو گئے تھے۔ ان میں سے نصف ملین سے زائد بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ یہ بات واضح نہیں کہ تب کتنے روہنگیا مسلمان مارے گئے تھے۔ لیکن اس میں بھی کسی کو کوئی شبہ نہیں کہ یہ کم ازکم جنوبی ایشیا کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی تھی۔
دو کم سن بیٹے
فاطمہ کی عمر صرف بیس برس ہے۔ اس کے دو کم سن بیٹے بھی ہیں۔ میانمار سے فرار ہونے سے پہلے اس نوجوان روہنگیا خاتون کو کئی بار ریپ کیا گیا۔ شاید تیس یا چالیس مرتبہ۔ صرف ایک ہی رات میں۔ اسے یاد بھی نہیں کہ اس پر یہ پہاڑ کتنی مرتبہ ٹوٹا تھا۔ یہ بھی نہیں کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے حملہ آور مرد کتنے تھے۔
فاطمہ جب اس بارے میں بہت ہلکی آواز میں بات کر رہی تھی، تو اس کی نظریں جیسے خیمے کے اندر زمین کی طرف دیکھتے ہوئے لیکن کہیں درمیان میں کسی جگہ یا چیز پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اگر کسی سننے والے یا سننے والی کی نظریں بولنے والی کی نظروں سے مل بھی جاتیں، تو فاطمہ کی آنکھوں میں خالی پن کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ جیسے کسی نے آنکھوں کے اندر سے ہی کوئی دروازہ بند کر دیا ہو، تاکہ کسی کو بھی کچھ نظر نہ آئے۔ اسی لمحے فاطمہ بولی، ’’میں اپنا جسم اپنے پیچھے راکھین ہی میں چھوڑ آئی ہوں۔‘‘
فاطمہ کے شوہر علی کی عمر فاطمہ کی اپنی عمر سے صرف دو سال زیادہ ہے۔ اپنی جھونپڑی میں پلاسٹک کے ایک چوکور سٹول پر اپنی بیوی کے پاس ہی بیٹھے اس بائیس سالہ روہنگیا مہاجر نے بتایا، ’’جب ہمارے گاؤں پر میانمار کی قومی سطح پر بودھ اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے مقامی ملیشیا گروپوں کے ارکان نے حملے شروع کر دیے، تو ان کے ہاتھوں یقینی طور پر قتل ہو جانے سے بچنے کے لیے بہت سے مقامی مردوں نے گاؤں سے رخصتی کا فیصلہ کیا۔ زیادہ تر اپنے اپنے اہل خانہ کی منت سماجت پر۔ مجھے بھی اپنی بیوی، چودہ ماہ کے بڑے بیٹے اور ایک چھوٹے سے شیر خوار بیٹے سے یہ سوچ کر رخصت ہونا پڑا کہ میری وجہ سے ان کی زندگیاں خطرے میں نہ پڑیں۔‘‘
پھر اس کے بعد زیادہ راتیں نہیں گزری تھیں کہ بودھ ملیشیا کارکن اس روہنگیا جوڑے کے گاؤں تک بھی پہنچ گئے۔ وہ فاطمہ کو قریبی جنگل میں لے گئے تھے۔ پھر ان حملہ آوروں میں سے ہر ایک بار بار اس نوجوان روہنگیا مسلم خاتون پر جھپٹتا رہا۔ اس کی منتیں اور سسکیاں کسی نے نہ سنیں، جس نے سنیں بھی، اس پر بھی حیوانیت سوار تھی۔
ایسا صرف فاطمہ کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔بہت سی عورتیں تھیں، نوجوان بھی اور درمیانی عمر کی بھی۔ ان کو بچا سکنے والے ان کے شوہر اور بھائی یا گھر کے دیگر مرد یا تو مارے جا چکے تھے یا پھر اپنے ہی گھر والوں کی منت سماجت کے بعد اپنی جانیں بچانے کے لیے پہلے ہی اپنے اپنے دیہات سے فرار ہو چکے تھے۔
اس کے بعد فاطمہ کسی طرح جنگل سے واپس اپنے گاؤں پہنچی اور اپنے سسرال کے بچے کھچے ارکان کے ساتھ ایک سرحدی دریا پار کر کے میانمار سے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ گئی۔
فاطمہ بنگلہ دیش پہنچی، تو کچھ عرصے بعد اس کا شوہر بھی ہزاروں دیگر روہنگیا مہاجرین کے ساتھ انہی کیمپوں میں پہنچا اور پھر اپنی بیوی اور اہل خانہ کو بھی تلاش کرنے میں کامیاب رہا۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
فاطمہ کے شوہر علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کے لیے ’اب بھی‘ اپنی بیوی کے ساتھ رہنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ علی نے کہا، ’’جو کچھ فاطمہ کے ساتھ ہوا، وہ شدید ترین انسانی ظلم تھا، اس میں اس کی کوئی آمادگی شامل نہیں تھی۔‘‘ علی نے اپنے بیان میں ’جو کچھ‘ کے جو الفاظ استعال کیے، ان سے اس کی مراد ظاہر ہے اس کی بیوی کے ساتھ کی گئی ’اجتماعی جنسی زیادتی‘ تھی۔ علی نے یہ بات اس لیے بھی کہی کہ بہت سے روہنگیا مسلمان اپنی ایسی بیویوں سے علیحدگی اختیا رکر چکے ہیں، جو ایسے اجتماعی جنسی مظالم کا نشانہ بنی تھیں۔
ایک ’وجود‘ جو گم ہو گیا
اب ہونا کیا چاہیے؟ فاطمہ کی صرف ایک ہی خواہش ہے، وہ بس واپس اپنے گاؤں جانا چاہتی ہے۔ اپنے وطن میں، جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ شاید اسے اپنی ذات کے اسی حصے کو دوبارہ پا لینے کی امید ہے، جو راکھین کے ایک جنگل میں ظلم و زیادتی کی انتہاؤں کے بیچ اس رات کہیں کھو گیا تھا۔ انسان زندہ ہو تو جسم اور روح یکجا رہنا تو چاہتے ہی ہیں۔ اس دوبارہ ملاپ سے پہلے کتنا انتظار کرنا پڑے گا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ فاطمہ بھی نہیں۔
فاطمہ کی جھونپڑی والی روہنگیا مہاجرین کی اس خیمہ بستی میں عارضی قیام گاہوں کی چھتوں پر ڈالی گئی پلاسٹک کی شیٹوں پر تیز بارش کا شور ابھی جاری تھا۔
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
روہنگیا مسلمانوں کا بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تک قریب تین لاکھ ستر ہزارروہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے روہنگیا اقلیت کے ہجرت کے اس سفر کی تصویری کہانی مرتب کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
طویل مسافت
میانمار میں راکھین صوبے سے ہزارہا روہنگیا مہاجرین ایک طویل مسافت طے کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو گود میں لاد کر دلدلی راستوں پر پیدل سفر آسان نہیں۔ یہ تصویر بنگلہ دیش میں ٹیکناف کے لمبر بل علاقے کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کیچڑ بھرا راستہ
اس تصویر میں عورتوں اور بچوں کو کیچڑ سے بھرے پیروں کے ساتھ کچے راستے پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیمار بھی تو اپنے ہیں
اپنا گھر چھوڑنے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن گھر کے بزرگوں اور بیمار افراد کو چھوڑنا ممکن نہیں۔ یہ دو روہنگیا افراد اپنے گھر کی ایک معذور خاتون کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کریک ڈاؤن کے بعد
میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن سے شروع ہونے والے تنازعے میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا افراد میں زیادہ تعداد بھی عورتوں اور بچوں ہی کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
منظم حملے
پچیس اگست کو میانمار میں روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس تھانوں پر منظم حملے کیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین شروع ہونے والی ان جھڑپوں کے باعث زیادہ تر نقصان روہنگیا باشندوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کئی سو ہلاکتیں
محتاط اندازوں کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
نف دریا
میانمار سے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے لیے دریا بھی پار کرنا پڑتا ہے۔ درمیان میں ’نف‘ نامی دریا پڑتا ہے، جسے کشتی کے ذریعے عبور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
الزام مسترد
میانمار کی حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور انہیں ہلاک یا ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سرحدی راستے
بنگلہ دیش پہنچنے کے لیے میانمار سے روہنگیا مسلمان مختلف سرحدی راستے اپناتے ہیں۔ زیادہ تر ٹیکناف اور نیخن گھڑی کی طرف سے آتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
گھروں کے جلنے کا دھواں
روہنگیا کمیونٹی کے گھروں کے جلنے کا دھواں بنگلہ دیش کے ٹیکناف ریجن سے گزرنے والے دریائے نف کے اس پار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
چھبیس سو مکانات نذر آتش
دو ستمبر کو میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔ تاہم حکومت کا الزام تھا کہ گھروں کو آگ لگانے کے ان واقعات میں روہنگیا ہی ملوث ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
جانور بھی ساتھ
بنگلہ دیش میں نقل مکانی کر کے آنے والے بعض روہنگیا افراد اپنے جانوروں کو ساتھ لانا نہیں بھولے۔ ایسی صورت میں یہ مہاجرین نف دریا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کوکس بازار
مہاجرین کی کچھ تعداد اب تک بنگلہ دیش کے کوکس بازار ضلع میں قائم عارضی کیمپوں میں جگہ ملنے سے محروم ہے۔ اس تصویر میں چند مہاجرین کوکس بازار کے قریب ٹیکناف ہائی وے پر کھڑے جگہ ملنے کے منتظر ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سڑک کنارے بسیرا
جن لوگوں کو کیمپوں میں جگہ نہیں ملتی وہ سڑک کے کنارے ہی کہیں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس روہنگیا خاتون کو بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑ رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
زیادہ بڑے شیلٹر
ٹیکناف کے علاقے میں بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے زیادہ بڑے شیلٹر بنا رہی ہے تاکہ جگہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
دو لاکھ سے زیادہ بچے
میانمار کے روہنگیا مہاجرین میں دو لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جو ان پناہ گزینوں کا ساٹھ فیصد ہیں۔
میانمار سے ان مہاجرین کی زیادہ تعداد جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلعے کاکس بازار پہنچتی ہے، کیونکہ یہی بنگلہ دیشی ضلع جغرافیائی طور پر میانمار کی ریاست راکھین سے جڑا ہوا ہے، جہاں سے یہ اقلیتی باشندے اپنی جانیں بچا کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
مہاجرین کی کہانیاں
بنگلہ دیش پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین نے بتایا ہے کہ راکھین میں سکیورٹی دستے نہ صرف عام روہنگیا باشندوں پر حملوں اور ان کے قتل کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ فوجیوں نے ان کے گھر تک بھی جلا دیے تاکہ عشروں سے راکھین میں مقیم ان باشندوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
اقوام متحدہ کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور ینگون حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیس ہزار مہاجرین روزانہ
رواں ہفتے عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اوسطا بیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ اس ادارے نے عالمی برداری سے ان مہاجرین کو فوری مدد پہنچانے کے لیے 26.1 ملین ڈالر کی رقوم کا بندوبست کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
تین لاکھ ستر ہزار پناہ گزین
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تین لاکھ ستر ہزار روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ ان افراد کو بنگلہ دیشی علاقے کوکس بازار میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
خوراک کی قلت
عالمی ادارہ مہاجرت کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا بھی دستیاب نہیں اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔