اپنی بقا کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں، ٹرانس جینڈرز
7 مارچ 2021
یونان ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے ترقی پسند مانا جاتا ہے۔ 2017ء سے اس ملک میں ایک قانون لاگو ہے جس میں ٹرانس جینڈرزکو اپنی جنس کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کاحق دیا گیا وہ بھی بغیر کسی سرجری کے۔ تاہم معاشرتی حقائق مختلف ہیں۔
اشتہار
ٹزانس جینڈرز کو روز مرہ زندگی میں سخت امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکثر ایسے افراد کے پاس روزگار کمانے کا واحد رستہ جسم فروشی ہوتا ہے۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ تک ان کا گزر بسر اسی پیشے سے ہو رہا تھا۔ اب کووڈ انیس کے سبب ان کا یہ کاروبار بھی مکمل طور پر بند پڑا ہے اور یہ انتہائی کسمپرسی اور نا اُمیدی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اشتہار
رافائیلا کی کہانی
رافائیلا ایک ٹرانس جینڈر ہیں اور یونان کے بہت سے دیگر ٹرانس جینڈرز کی طرح دارالحکومت ایتھنز میں سیکس ورکر کی حیثیت سے کام کر کے اپنا پیٹ پالتی ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں، ان کے ساتھ اچھوت کی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہے، ''ہمیں وہ نہیں پڑھنے دیا جاتا جو ہم چاہتے ہیں اس لیے کہ ہم مستقبل میں کسی شعبے میں کوئی روزگار حاصل نہیں کر سکتے۔ نہ ہی کسی اور جگہ بطور شاپ کیپر کے یا کیشیئر وغیرہ کی جاب ہمارے لیے ہے۔ ہماری کمائی کا واحد ذریعہ جسم فروشی ہے۔ ہم اپنی بقا کے لیے اپنا جسم فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘
رافائیلا کا تعلق یونان کے ایک چھوٹے سے شہر سے ہے۔ جب سے انہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ وہ اپنی شناخت کو اپنے پیدائشی جنس سے مربوط نہیں کرتیں بلکہ وہ خود کو ایک عورت محسوس کرتی ہیں، تب سے ان کی زندگی یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اُنہیں اسکول میں غنڈہ گردی کا سامنا رہا اور خود اُن کے گھر والوں نے اُن سے مُنہ موڑ لیا۔ وہ کبھی اسکول کی تعلیم مکمل نہ کر سکیں۔ اب وہ ایتھنز کے ایک پسماندہ علاقے کے ایک مخدوش چھوٹے سے گھر میں ایک چھوٹے سے کُتے اور ایک بلی کے ساتھ زندگی بسر کرر ہی ہیں۔
یونان میں جسم فروشی
ٹرانس جینڈرز کو ریاست کی طرف سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ یونان میں گرچہ جسم فروشی چند مخصوص شرائط پر قانونی ہے تاہم اس کے تقاضے اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں بہت مشکل سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ رافائیلا کا کہنا ہے کہ اُن جیسی بہت سی سیکس ورکر غیر قانونی طور پر سڑکوں پر کام کرتی ہیں۔ ان کو نہ تو کوئی معاشرتی تحفظ حاصل ہے نہ ہی انشورنس اور پنشن وغیرہ۔
جینڈر ایکس: پاکستانی ٹرانس جینڈرز کی زندگی پر بنی دستاویزی فلم
جرمن فوٹوگرافر اور فلم ساز مانولو ٹائے نے پاکستان میں بسنے والے اقلیتی طبقے خواجہ سراؤں یا ٹرانس جینڈر افراد کی زندگی پر خصوصی دستاویزی فلم بنائی ہے۔ Gender X کے چند اہم کرداروں کی کہانی جانیے اس خصوصی پکچر گیلری میں۔
تصویر: Manolo Ty
سڑکوں پر بھیک مانگتے خواجہ سرا
پاکستان کے بڑے شہر لاہور میں ایک نوجوان ٹرانس جینڈر خاتون ٹریفک کے رش کے اوقات کے دوران بھیک مانگ رہی ہے۔ ہر شب کی طرح، آج بھی اس کے گُرو نے اپنی ہجڑا برادری کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے لیے اسے بھیجا تھا، جہاں اس کی رہائش ہے۔
تصویر: Manolo Ty
گداگری، جسم فروشی اور رقص
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ثقافتی تقریب کے دوران ایک بزرگ ہجڑا روایتی لباس میں رقص کر رہا ہے۔ گداگری اور جسم فروشی کے علاوہ رقص خواجہ سراؤں کی آمدنی کے تین اہم ذرائع میں سے ایک ہے۔
تصویر: Manolo Ty
پناہ کی تلاش میں پاکستان سے ہالینڈ کا سفر
اسلام آباد میں فیشن شوٹ کے دوران ایک پشتون انسانی حقوق کی کارکن عنایہ۔ 2016 میں امریکی دستاویزی فلم ’بلیک آؤٹ‘ میں منظر عام پر آئیں۔ پاکستان میں عنایہ ٹرانس جینڈر تحریک کی چند نامور شخصیات میں سے ایک ہیں۔ یہ تصویر بنوانے کے دو ماہ بعد اسے پاکستان سے فرار ہونا پڑا کیونکہ اس کے اہل خانہ نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اب عنایہ ہالینڈ میں رہتی ہے۔ اس کی کہانی دستاویزی فلم Gender X کا ایک حصہ ہے۔
تصویر: Manolo Ty
ٹرانس جینڈر خواتین کی روز مرہ کی زندگی
ٹرانس جینڈر خواتین لوڈوکھیل رہی ہیں۔ بہت ساری ٹرانس جینڈر خواتین کو کم عمری میں ہی اپنے اہل خانہ سے الگ کر کے نام نہاد ’گرو‘ یعنی خواجہ سراؤں کی برادری میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ گرو کے پاس انہیں نہ صرف پناہ ملتی ہے بلکہ ایک نیا خاندان بھی مل جاتا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
پاکستان کی پہلی ’ٹرانس ماڈل‘
کامی سڈ کراچی میں اپنے اپارٹمنٹ میں ہے۔ انگریزی اخبار گارڈین نے کامی کو پاکستان کی پہلی ’ٹرانس ماڈل‘ قرار دیا۔ پاکستانی معاشرے میں جس حقارت کی نظر سے ٹرانسجینڈر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے، کامی سڈ ان دقیانوسی خیالات کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
تصویر: Manolo Ty
کاسٹریشن یعنی ’آختہ کاری‘
کراچی میں شہزادی اپنے کمرے میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کی حیثیت سے اپنی نئی ملازمت کی تیاری کر رہی ہے۔ دو سال قبل ، کاسٹریشن یعنی ’آختہ کاری‘ کے بعد اس کی صحت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ بعد ازاں شہزادی جسم فروشی کا کام چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔
تصویر: Manolo Ty
تیسری جنس کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ
پشاور میں انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ اپنے گھر میں بستر پر بیٹھی ہیں۔ فرزانہ تیسری جنس کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے والی پہلی شخص ہے۔ انہوں نے خود کو تیسری جنس کے ساتھ رجسٹرڈ کروایا۔ فرزانہ پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کے ایک دن بعد مانولو نے یہ تصویر کھینچی تھی۔ تذلیل کی نشانی کے طور پر، ان کے حملہ آوروں نے ان کے لمبے لمبے بال کاٹ دیے۔
تصویر: Manolo Ty
’’اس ہی طرح پیدا ہوئی‘‘
’بریسٹ ایمپلانٹیشن‘ یعنی نئی چھاتی حاصل کرنے کے لیے کامیاب سرجری کے 8 ہفتوں بعد، رومیسا کراچی میں اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھی ہیں۔ رومیسا شہر کے ایک پوش علاقے میں اپنے دوست کے ساتھ رہتی ہے اس کے باوجود وہ خود کو حجڑا برادری کا حصہ سمجھتی ہے اور اپنے حقوق کے لیے لڑتی ہے۔ بائیں بازو پر نقش ٹیٹو میں "Born this way" یعنی ’’اس ہی طرح پیدا ہوئی‘‘ لکھا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
ٹرانس جینڈر افراد اور سوشل میڈیا
کراچی کے ایک نواحی علاقے میں دو خواجہ سراہ افراد اپنا فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا نے پاکستانی معاشرے میں ٹرانس جینڈر برادری کو آواز دی ہے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا یہ ان کا پسندیدہ پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
تصویر: Manolo Ty
ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے لڑائی
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل 2018 ءکے بارے میں کراچی کے قریب خواجہ سراہ کمیونٹی اجلاس، کچھ ہی دیر بعد پاکستانی سینیٹ نے اس بل کی توثیق کردی۔
تصویر: Manolo Ty
مانولو ٹائے کی خصوصی ڈاکیومنٹری Gender X
جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹائے کی خصوصی ڈاکیومنٹری ’جینڈر ایکس‘ اقوام متحدہ کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ یہ فلم یورپ کے متعدد فلم فیسٹیول میں بھی نمائش کے لیے پیش کی جاچکی ہے۔ کراچی کے گوئتھے انسٹیٹیوٹ میں 5 دسمبر کو ہیومن رائٹس ریل فیسٹیول میں دکھائی جائے گی جبکہ 9 دسمبر کو اسلام آباد میں سنیماٹوگرافی کے ذریعے انسانی حقوق کے فلم فیسٹیول کی زینت بنے گی۔
تصویر: Manolo Ty
11 تصاویر1 | 11
کورونا کے سبب جینا مزید دوبھر
کورونا وبا نے ٹرانس جینڈرز کی زندگی کی صورتحال کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔ انفیکشن کے پھیلاؤ کے خطرے کے سبب جنسی کاروبار بند پڑا ہے۔ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے سیکس ورکرز کے ساتھ حکومت بالکل تعاون نہیں کر رہی۔ اب کورونا کی وبا کو بھی ایک سال ہو گیا بہت سی خواتین اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے سے مجبور ہیں ان کی زندگیاں بہت ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ بے گھر ہو چُکی ہیں اور سڑک پر رہتی ہیں، نہ بجلی میسر ہے نہ پانی۔
یونان کی ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن جو ایک عرصے سے اپنے اراکین کی سماجی قبولیت کی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہے، بد ترین متاثرہ افراد کی مہینے میں دو بار خوراک کے عطیے سے مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر یہ بالکل ناکافی ہے۔ رافائیلا کہتی ہیں، ''میں غیر قانونی کام کرتی ہوں، خوف سے لرزتی ہوئی، میں بھی انسان ہوں، مجھے بھی ڈر لگتا ہے کہ اگر کوئی گاہک کورونا انفیکشن کی ظاہری علامات کے بغیر ہو گا تو مجھے بھی یہ انفیکشن لگ سکتا ہے۔ یہ خوف بھی رہتا ہے کہ کہیں پولیس مجھے نہ پکڑ لے اور کرفیو کے باوجود مجھے باہر نکلنے پر سزا ہو جائے۔‘‘
رافائیلا کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں اُنہیں اپنے گاہکوں کی تلاش رہتی ہے اور اس بات کی امید کہ شاید کبھی یونانی معاشرہ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ کشادہ دل ہو جائے۔