تاریخی حوالے سے جو کچھ کہا سنا گیا، اس حوالے سے یہ نعرہ غلط بھی نہیں۔ لیکن اگر آج کے پاکستان کے روزمرہ معاملات دیکھے جائیں تو ذہن میں فوراً یہ سوال گونجنے لگتا ہے کہ آج کے پاکستان کا لا الہ الا اللہ سے کتنا تعلق باقی بچا ہے؟
عوامی سطح پر اس سوال کا جواب ہے، ’’بہت زیادہ۔‘‘ عوام آج بھی وہی اور اتنے ہی معصوم ہیں، جو ہر مسئلے کا حل اپنی سادہ مذہب پسندی اور اعتقاد میں ڈھونڈتے ہیں۔ مسئلہ وہ سیاست دان ہیں، جو عوام کی ذہنیت اور ان کی فکری مجبوری کو بھانپ لیتے ہیں اور پھر کسی بھی قومی رہنما کی تقریر کے دوران اس رہنما کا کوئی نیم خواندہ لیکن عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوئے مشیر ٹائپ فرد اپنے رہنما کو ہلکی آواز میں یہ مشورہ بھی دیتا سنائی دیتا ہے، ''سر، تھوڑا سا اسلامی ٹچ بھی ڈالیں۔‘‘
بات یہ ہے کہ سیاسی تقاریر میں جب اسلام جیسے مذہب کو بھی ’’اسلامی ٹچ ڈالنے‘‘ کے لیے استعمال کیا جائے تو وہاں اسلام تو کیا دنیا کا کوئی بھی دوسرا مذہب بھی ناکام ہو جائے گا۔
اسی ’’اسلامی ٹچ‘‘اور سیاست میں سیاسی ہمدردی کے نام پر شخصیت پرستی کے رجحان نے گزشتہ کئی برسوں سے ہمیں ایک ایسی نوکیلی چٹان کے کونے پر کھڑا کر رکھا ہے، جس کے ایک طرف گہری کھائی ہے اور دوسری طرف سادہ لوح عوام کو اپنے مفاد کے لیے مذہب کا چورن بیچتے سیاست دان۔
ہم لفظ سازش کے سحر میں کیوں جکڑے جاتے ہیں؟
نتیجہ یہ کہ سیاسی جماعتیں، جن میں کبھی کبھار اچانک کسی طوفانی لہر کی طرح سامنے آنے والی کسی جماعت کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے، ابھی تک عوام کو اس کے مستقبل سمیت گروی رکھنے کی سوچ پر عمل پیرا ہیں۔
مذہب کو جمہوری سیاسی جماعتوں سے لے کر سماجی انقلاب لانے کے دعوے کرنے والی جماعتوں تک سبھی اپنے مفاد کے لیے بیچتے رہتے ہیں اور خریدار پچھلے سات عشروں سے زائد عرصے سے وہی عوام ہیں، جنہیں کسی بھی الیکشن کے نتیجے میں کبھی وہ نہیں ملا، جو انہوں نے سوچا تھا کہ انہوں نے اپنے ووٹ سے اپنے ملک کی فلاح اور اپنی اجتماعی بہبود کے لیے خرید لیا تھا۔
مغربی دنیا میں اگر کچھ ایسا خرید لیا جائے، جو بعد میں حسب منشا نہ نکلے تو صارف وہ چیز اس طرح واپس کرنے کا پورا حق رکھتا ہے اور وہ بھی قیمت خرید کی مکمل واپسی کی ضمانت کے ساتھ۔ پاکستانی سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ خریدی ہوئی چیز واپس نہیں ہو گی، اس سیاسی منڈی کا کلیدی ضابطہ یہی ہے۔
یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے آج تک پاکستانی عوام کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ جو ہے اسے برداشت کرنا پڑے گا، تب تک جب تک کوئی بہت طاقت ور فرد یا ادارہ اس سیٹ اپ کو تبدیل نہیں کر دیتا جو کہ ہوتا ہے اور جس کی جگہ پر پھر کچھ یا کوئی نیا سامنے آ جاتا ہے۔
پھر جب کوئی یا کچھ نیا سامنے آنے کا وقت آتا ہے، تو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، مذہب، اسلام کے قلعے یا پاک سرزمین کے عوام کی ٹوٹی ہوئی امنگوں کو جوڑنے کی وہی بات کی جاتی ہے، جو بات کر کے جانے والا اقتدار میں آیا یا لایا گیا ہوتا ہے۔
پاکستانی قوم آج بھی سماجی اور سیاسی طور پر ایک بری طرح منقسم قوم ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹر مسلم لیگ ن کے حامیوں کو پٹواریوں کے جاہل سپورٹر سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے طرف دار پیپلز پارٹی اور عمران خان کی تحریک انصاف کے حامیوں کو راہ راست سے ہٹے ہوئے کم عقل شہری گردانتے ہیں تو پی ٹی آئی کے جذباتی کارکنوں کے نزدیک پیپلز پارٹی کے جیالوں اور ن لیگ کے شیر کے حامیوں سے ’’اب کچھ بھی ہونے والا نہیں‘‘ اور ہر مسئلے کا حل یہی ہے، ''جب آئے گا (اب دوبارہ) عمران۔‘‘
لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ عوام کو گونگے، بہرے اور نابینا سمجھتے ہوئے جب دھوپ کے سیاہ چشمے پہنے ہوئے کوئی لیڈر اپنی تقریر کر رہا ہوتا ہے تو پھر ایک بار بغل سے کسی ناہنجار اور موقع پرست مشیر کا یہی مشورہ سنائی دیتا ہے، جس میں وہ ہلکی آواز میں اپنے رہنما کو یہ کہتے ہوئے مائیکروفون پر پکڑا جاتا ہے، ''سر! ذرا سا اسلامی ٹچ بھی ڈالیں!‘‘
بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی سادگی پر کوئی شبہ نہیں کیا جانا چاہیے اور پاکستانی سیاست دانوں کی موقع پرستی، انا پسندی، اور منافقت پر یقین نہ کرنے کی بھی سرے سے کوئی وجہ ہی نہیں۔ ضرورت اس بات کہ ہے کہ سیاست دانوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ عوام بھیڑوں کا کوئی ریوڑ نہیں ہوتے جسے جب چاہے کسی بھی طرف ہانک دیا جائے۔
وہ کوئی ایسا بلینک چیک بھی نہیں ہوتے، جسے ووٹ کے بدلے ہر چار سال بعد قیمے کے دو نان یا بریانی کی ایک پلیٹ کھلا کر یا کوئی نیا جذباتی گیت سنا کر اس چیک پر جتنی مرضی رقم لکھ کر اسے کیش کرا لیا جائے۔
پاکستان کے ایسے کروڑوں ’’بےوقعت‘‘ ووٹروں میں سے ہر ایک اتنا ہی اہم ہے، جتنا ان ووٹروں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا کوئی بھی، کسی بھی پارٹی کا وزیر اعظم یا وزیر۔ یہی وہ سبق ہے، جو محکوموں سے زیادہ حاکموں کو سیکھنے کی ضرورت ہے اور جو نسل در نسل چلے آ رہے جمہوری حاکموں نے آج تک نہیں سیکھا۔
مذہب کا سیاسی استعمال: کئی حلقوں کو تشویش
قانون کا اطلاق حاکم اور محکوم دونوں پر برابر ہونا چاہیے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو محکوم ’’بےوقعت‘‘ اور حاکم، چاہے وہ کوئی بھی ہوں، ''باوقعت‘‘ ہی رہتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ آج تک اپنے اندر ''حاکم اور محکوم‘‘ کے مابین اسی وسیع خلیج کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
جس دن یہ خلیج پر ہو گئی، اس دن کسی حکمران یا سیاسی رہنما کے درجنوں مسلح محافظوں اور بیسیوں گاڑیوں والے قافلے کے باآسانی گزر جانے کو ممکن بنانے کے لیے بند کی گئی کسی سڑک کے کنارے قانون کے محافظوں کی قطار کے پیچھے گاڑیوں کی کسی ہجوم میں پھنسی نہ تو کوئی حاملہ عورت ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑے گی اور نہ ہی اس کا نامولود بچہ رحم مادر میں دم توڑے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔