اپنی غلطی کورونا کے سر: ’اب آٹا لینے کوئی اور ہی جائے گا‘
31 مارچ 2020
جرمنی میں پولیس نے ایک شہر کے اندر مقررہ حد سے دگنی رفتار سے ڈرائیونگ کرنے والے ایک ڈرائیور کو پکڑا تو اس نے اپنے جرم کی ذمے داری کورونا بحران کی سر ڈالتے ہوئے کورونا وائرس کو ہی اپنے جرم کی وجہ قرار دیا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
اشتہار
جرمنی کے مغربی شہر لیُوڈن شائڈ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق منگل اکتیس مارچ کے روز ایک مقامی پیزا ریستوراں کا نانبائی ڈرائیونگ کرتے ہوئے شہر کے ایک ایسے علاقے سے گزر رہا تھا، جہاں حد رفتار پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ لیکن اس ڈرائیور کی گاڑی کی رفتار پچانوے کلومیٹر فی گھنٹہ تھی، جسے پولیس کی قریب ہی موجود اور اسپیڈ ریڈار سے لیس ایک گاڑی نے ریکارڈ بھی کر لیا تھا۔
برلن میں کھانے کی ہوم ڈلیوری کے رجحان میں اضافہ
03:09
This browser does not support the video element.
اتنی زیادہ تیز رفتاری پر پولیس نے فوراﹰ ہی پیچھا کر کے اس ڈرائیور کو روک لیا۔ جب اس سے مقررہ سے تقریباﹰ دو گنا رفتار سے ڈرائیونگ کرنے کی وجہ پوچھی گئی، تو اس نے بتایا، ''قصور میرا نہیں، کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کا ہے۔‘‘
پولیس اہلکار جب اس ڈرائیور کا یہ موقف سمجھنے میں ناکام رہے، تو اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''میں عام طور پر مقررہ حد سے زیادہ رفتار سے ڈرائیونگ نہیں کرتا۔ لیکن میرے ریستوراں میں وہ آٹا ختم ہو گیا ہے، جس سے ہم پیزا بناتے ہیں۔ میں جلدی میں ایک ہول سیل سپر مارکیٹ جا رہا ہوں تاکہ مارکیٹ بند ہونے سے قبل آٹا خرید سکوں۔‘‘
لیُوڈن شائڈ پولیس نے بتایا کہ اس پر موقع پر موجود اہلکاروں نے پہلے اس ڈرائیور کو 200 یورو (219 ڈالر کے برابر) جرمانہ کیا اور ساتھ ہی ایک ماہ کے لیے اس کا ڈرائیونگ لائسنس بھی معطل کر دیا۔ پولیس کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس ملزم کو، جس کا نام اس کے نجی کوائف کی حفاظت کی پیش نظر ظاہر نہیں کیا گیا، جرمانے اور ایک ماہ کے لیے ڈرائیونگ کی ممانعت کی قانونی رسید دیتے ہوئے یہ بھی بتا دیا گیا، ''اب ایک ماہ تک آٹا لینے کوئی اور ہی جائے گا۔‘‘
م م / ا ا (ڈی پی اے)
اسپین میں ٹماٹروں سے جنگ، ایک منفرد تہوار
اسپین میں منعقد ہونے والے ’ٹوماٹینا فیسٹیول‘ کو دنیا کی سب سے بڑی ’فوڈ فائٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں شریک افراد ایک دوسرے کو ٹماٹروں سے مارتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
اسپین میں منائے جانے والے کئی تہورا دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک ’ٹوماٹینا فیسٹیول‘ بھی ہے۔ اس دوران نیم برہنہ شائقین ایک دوسرے پر ٹماٹر برساتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
پچاس کی دہائی میں اس تہوار کے انعقاد پر چند برسوں تک پابندی عائد رہی لیکن بعدازاں اسے دوبارہ منانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اس سالانہ تہوار میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
اس دوران ایک ٹرک پر تقریباً سوا لاکھ کے قریب ٹماٹر لدے ہوتے ہیں اور یہ ٹرک بونول کی پتلی سڑکوں سے گزرتا ہے۔ سڑک کے کنارے کھڑے افراد کے سروں پر ٹماٹر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٹوماٹینا فیسٹیول کا آغاز 1945ء میں ہوا تھا اور ہر سال یہ اگست کے آخری بدھ کے روز منایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
بونول شہر کی مقامی انتظامیہ کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹوماٹینا اپنی شناخت کھوتا جا رہا تھا۔’’شائقین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن اب نئے اقدامات کے بعد دوبارہ سے اسے بھرپور انداز میں منایا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
ٹوماٹینا اپنے پاگل پن کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اسپین کا رخ کرتی ہے۔ ٹوکیو سے تعلق رکھنے والی پچیس سالہ آیانو سائیتو نے بتایا کہ ’’اس فیسٹیول کے پاگل پن کو ہی دیکھتے ہوئے بہت سے جاپانی اس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک منفرد تہوار ہے۔‘‘
جنوبی اسپین کے شہر بونول میں منعقد کیے جانے والے اس تہوار میں ایک بڑے ٹرک کے ذریعے راستے میں کھڑے افراد پر ٹماٹر برسائے جاتے ہیں۔ مقامی اور دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں سیاحوں کے جسموں پر صرف ٹماٹر کے بیج اور چھلکے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Saiz
اس دوران مقامی افراد اپنے گھروں اور دکانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہیں۔ تاہم اس تہوار کے بہت سارے انتظامات اب نجی اداروں کے حوالے کرنے سے ٹوماٹینا کے جوش و جذبے میں بھی فرق پڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
مقامی حکام نے تحفظ اور انتظامات کے نام پر’اسپین ٹاس ٹک‘ نامی ایک نجی کمپنی کو اس تہوار میں شرکت کے لیے داخلہ فیس وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ دوسری جانب شہری انتظامیہ نے بتایا کہ سکیورٹی کی ذمہ داری ایک نجی کمپنی کے حوالے کرنے سے کافی بہتری ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
اس فیسٹیول میں شریک ستائیس سالہ جیسیکا سمز امریکی ریاست یوٹا سے اسپین پہنچی ہیں۔ وہ خوشی سے بتاتی ہیں کہ ’ٹماٹروں کو پھینکنا اور اس کا نشانہ بننا ایک اچھی تفریح ہے۔ ٹماٹر بارش کی طرح برستے رہتے ہیں‘۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
جیسیکا کے بقول یہ فیسٹیول ایک جانب تفریح ہے تو دوسری طرف خوف بھی رہتا ہے، ’’یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر آپ ٹماٹر اٹھانے کے لیے نیچے جھکے تو شاید آپ کے لیے دوبارہ کھڑے ہونا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/Gtresonline
دوسری جانب خوراک کے ضیاع کے خلاف سرگرم کارکن اس تہوار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ٹماٹروں کو ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ انہیں مستحق افراد تک پہنچایا جائے۔