امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے يورپی ملکوں پر زور ديا ہے کہ وہ شام میں گرفتار ہونے والے ’اسلامک اسٹيٹ‘ سے منسلک سينکڑوں يورپی جہادی واپس ليں، بصورت ديگر انہيں رہا کر ديا جائے گا۔
اشتہار
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ يورپی رياستوں کو شام میں گرفتار کیے گئے ’اسلامک اسٹيٹ‘ يا داعش کے ايسے جہاديوں کو واپس لينا ہو گا، جو يورپی ممالک کے شہری ہيں۔ ٹرمپ نے اس بارے ميں ہفتے کی شب ايک ٹوئيٹ کی، ’’امريکا برطانيہ، فرانس، جرمنی اور ديگر يورپی اتحاديوں سے کہنا ہے کہ وہ ان آٹھ سو سے زائد جہاديوں کو واپس لیں اور ان پر اپنے اپنے ملکوں ميں مقدمات چلائيں، جنہيں شام سے حراست ميں ليا گيا۔ يہ جہادی اس وقت شامی باغيوں کی امريکی حمايت يافتہ عسکری تنظيم سيرين ڈيموکريٹک فورسز کی تحويل ميں ہيں۔
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے سال دسمبر ميں شام سے امريکی افواج کے انخلاء کا اچانک اعلان کر ديا تھا، جس سے نہ صرف خطے ميں بلکہ شام ميں عسکری سرگرميوں ميں شريک امريکا کی اتحاديوں ميں بھی بے چينی پائی جاتی ہے۔ شام ميں اب اسلامک اسٹيٹ کے زير قبضہ علاقہ بہت ہی محدود ہے اور امکان ظاہر کيا جا رہا ہے کہ آئندہ چند ايام ميں جہاديوں کا مکمل صفايا کر ديا جائے گا۔
امريکی صدر نے اپنے ٹوئٹر پيغام ميں مزيد لکھا کہ شام ميں ’اسلامک اسٹيٹ‘ کی خود ساختہ خلافت گرنے والی ہے اور اگر يورپی رياستوں نے اپنے شہريوں کو واپس نہ ليا، تو داعش کی رکنيت اختيار کرنے والے ان جہاديوں کو رہا کر ديا جائے گا، جو يقيناً ايک مثبت پيش رفت نہ ہو گی۔ ٹرمپ نے لکھا کہ امريکا نہيں چاہتا کہ يہ جہادی اپنے طور پر يورپ پہنچ کر وہاں اپنی سرگرمياں جاری رکھيں۔
امريکی صدر کے ٹوئيٹس ایسے وقت میں آئے ہیں جب واسٹ ہاؤس کے علاوہ امریکی ناسب صدر مائیک پینس کہہ چکے ہیں کہ شام میں داعش کی خلافت کے سو فيصد خاتمے کے بعد امريکی افواج شام سے نکل جائيں گی۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔