1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اپنے شہریوں کی جاسوسی پر فرانس سراپا احتجاج

زبیر بشیر21 اکتوبر 2013

فرانس میں جاسوسی کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد پیرس حکومت نے امریکی سفیر سے وضاحت طلب کر لی ہے کہ کیا وجہ تھی کہ واشنگٹن حکومت نے اپنے قریبی حلیف ملک کی اتنے بڑے پیمانے پر جاسوسی کی جاسوسی کی۔

تصویر: picture-alliance/dpa

فرانس کے وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے کہا کہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر ان سے وضاحت طلب کی گئی۔ ایسی بات کسی بھی صورت ’قابل قبول‘ نہیں ہو سکتی۔ فرانس میں امریکی سفیر چارلس ریوکن نے اس حوالے سے کسی بھی فوری ردعمل سے معذوری ظاہر کی ہے۔ تاہم ان یہ کہنا ہے کہ ہمارے دفاع سمیت دیگر شعبوں انتہائی مثالی تعلقات ہیں۔

فرانسیسی اخبار لے مونڈ نے آج اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے جاری کی گئی دستاویزات کے مطابق امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی این ایس اے نے ایک ماہ کے دوران فرانسیسی شہریوں کے 70.3 ملین سے زائد بار ٹیلی فون ٹیپ کیے۔

فرانسیسی اخبار لے مونڈ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایک ماہ کے دوران فرانسیسی شہریوں کے 70.3 ملین سے زائد بار ٹیلی فون ٹیپ کیے گئےتصویر: imago/McPHOTO

پیر کے روز سامنے آنے والی اس رپورٹ کے مطابق فرانس میں جاسوسی کے لیے ایک خود کار نظام استعمال کیا گیا۔ اس کے مطابق کوئی مخصوص لفظ بولنے یا کسی خاص نمبر کے ڈائل کرنے پر یہ ریکارڈنگ خودبخود شروع ہو جاتی ہے۔ نگرانی کے اس پروگرام کے ذریعے کچھ خاص الفاظ کے حامل تحریری پیغامات بھی جاسوسی پروگرام کی زد میں آئے۔

اس سے قبل فرانس کے وزیر داخلہ مینوئل والس نے ’لے مونڈ‘ اخبار کے انکشاف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’یہ حیرت انگیز ہے۔‘‘ لے مونڈ کے مطابق 10 دسمبر 2012 سے 8 جنوری 2013 کے دوران قریب ایک ماہ کے عرصے میں فرانس میں سات کروڑ تیس لاکھ سے زائد فون ٹیپ کیے گئے۔ والس نے ایک یورپی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا اپنے اہم اتحادی ملک فرانس یا کسی اور یورپی ملک کی جاسوسی کرےتو، یہ ناقابل یقین لگتا ہے۔

امریکی خفیہ ادارے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے مطابق برطانیہ، برازیل اور جرمنی میں بھی اسی قسم کی جاسوسی کے انکشافات ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

یہ الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری فرانس کے دورے پر پہنچ رہے ہیں۔

فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے اس حوالے سے مزید کہا، ’’ہمیں اس حوالے سے جون کے مہینے میں خبردار کیا گیا تھا اور ہم نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ہمیں اس حوالے سے ابھی مزید کام کرنا ہے۔‘‘

جرمن ہفت روزے ’ڈیئر شپیگل‘ نے امریکی قومی سلامتی کے ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی سال 2010ء کی ’ٹاپ سیکرٹ‘ دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ این ایس اے نے نہ صرف واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں یورپی یونین کے اندرونی کمپیوٹر نظام میں ’داخل ہو کر معلومات چرائی‘ بلکہ یورپی اہلکاروں کی ٹیلی فون کالز بھی سُنیں جب کہ دستاویزات اور ای میلز تک بھی خفیہ انداز میں رسائی حاصل کر رکھی تھی۔

ڈیئر شپیگل نے این ایس اے کی جانب سے میکسکو حکومت کی جاسوسی کا بھی انکشاف کیا تھا۔ میکسیکن حکومت نے بھی اس معاملے پر امریکا سے استفسار کیا ہے۔ میکسیکو کے وزیر خارجہ نے اس حوالے سے اتوار کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا، ’’میکسیکو حکومت اپنے شہریوں، اداروں اور اعلیٰ عہدیداران کی اس طرح جاسوسی کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔ یہ ہماری پرائیویسی کی صریحاﹰ خلاف ورزی ہے۔‘‘

امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی جانب سے برطانیہ، برازیل اور جرمنی میں بھی اسی قسم کی جاسوسی کے انکشافات ہو چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں