کراچی میں ن لیگ کی نہ شاخیں ہیں اور نہ ہی جڑیں۔ ہاں کراچی میں دل و جان سے چند ن لیگی ضرور ہیں، جن میں چچا گیرو بھی ایک ہیں۔ ادھیڑ عمر چچا گیرو کا تعارف اتنا ہی غیر ضروری ہے جتنا کہ ن لیگ کے لیے اس وقت عمران خان۔
اشتہار
میں نے چچا سے کراچی میں ن لیگ کی دو روزہ زندگی پر بطور ایک کارکن تبصرہ طلب کیا۔ چچا گیرو نجانے کس موڈ میں تھے۔ کہنے لگے، ''اورماڑہ میں پتہ ہے نا کتنے فوجی جوان شہید ہوئے؟‘‘ میں چپ ہو گئی کیونکہ یہ سانحہ گزشتہ ہفتے کی سیاسی خبروں میں کہیں دب سا گیا تھا۔ ’’بیٹی تمھیں یہ تو معلوم ہے نا اورماڑہ کہاں ہے ؟‘‘ ان کے لہجے میں طنز تھا۔
بلوچی لوک گیت 'وشملے‘ اور وہاب بگٹی کا نغمہ ’اے میری زمین افسوس نہیں‘ اچھا لگتا ہے۔ اکبر بگٹی کا معاملہ، بلوچ علیحدگی پسند تحریک، کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی، لاپتا افراد، ریکوڈک میں چھپا سونا، قاضی فائز عیسیٰ اور سی پیک منصوبہ، اس بارے میں جو اطلاعات خبروں کے ذریعے ملیں، میرے پاس وہی سرسری سی معلومات ہیں۔
میں نے کمال مہارت سے اپنی کم علمی کا ملبہ دوسروں پہ بھی ڈال دیا اور بغیر لگی لپٹی کے سچ سچ کہہ دیا، ’’بلوچستان کے بارے میں جتنی کسی بھی عام پاکستانی کو معلومات ہیں، مجھے بھی اتنا ہی علم ہے۔‘‘
اپوزیشن کی سیاست پر عمومی بات چیت ہوئی اور فون بند ہو۔ چچا گیرو کے سوالات اپنا کام دکھا گئے تھے۔ واقعی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے بلوچستان میں بسے بلوچ ، پشتون اور ہزارہ پاکستانیوں سے ہمارا رابطہ کس قدر مضبوط ہے کبھی اس سوال پہ غورہی کیا ؟
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
12 تصاویر1 | 12
کسی زمین کو سمجھنے کے لیے اس کے باسیوں کے ادب کو پڑھیں، تو اس مٹی سے انسیت سی ہونے لگے گی۔ میں نے پہلی بار بلوچی لکھاری اور شعراء کا کام ڈھونڈنا شروع کیا۔ معلوم ہے مجھے کیا ملا ؟ محبت یا مزاحمت۔
مکران کے عطا شاد کو پڑھیے، یہ ابھی نوے کی دہائی میں ہمارے ساتھ ہی تھے:
صدیوں کا محروم، ہزاروں عمروں کا ناکام وہ اک انسان ، بولان ہو جیسے
عصر حاضر کے شاعر بقا بلوچ کے کلام کو کھنگالیں :
کوئی بیگانہ جو ہوتا تو گلہ بھی کرتے، یاں تو اپنوں نے ہی لوٹا ہے شبستاں اپنا
میں لکھتی رہوں گی شکووں اور مزاحمت سے بھرپور بلوچی شعراء کا کلام آپ پڑھتے رہیں گے۔
لیکن بلوچی زبان کے فیض احمد فیض کے نام سے مشہورگل خان نصیر کا یادگار کلام بھلا کیسے نظر انداز کریں :
کیسے مانوں کہ لوگوں کی حکومت ہوگی جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی
کیسے مانوں کہ یہاں ختم رعونت ہوگی جبکہ فرعون بنے بیٹھے ہیں زردار وہی
ہم ایسے کم ہمت، لاعلم ، بے پروا لوگ ہیں کہ بلوچستان کی جس زمین کے اندر اور اوپر ہیرے بکھرے پڑے ہیں ہم نے انہیں خاک کر دیا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے، تعلیمی اسکالرشپس کی بحالی کے لیے بلوچ طلبہ نے لانگ مارچ کیا، لیکن ہم لاتعلق سے رہے۔
وہاں پرائمری سے یونیورسٹیوں تک تعلیم کس زبوں حالی کا شکار ہے، اس پہ بات بھلا کون کرے اور کیوں کرے۔ بلوچستان میں صحت کی سہولیات ہیں بھی کہ نہیں یہ بھی ہماری دلچسپی کا موضوع نہیں۔
بلوچستان میں یونیورسٹیوں کے طلبہ مطالبات کر کر کے تھک ہار بیٹھے کہ کورونا کے دنوں میں جو آن لائین کلاسز کا فیصلہ ہوا ہے، تو بتائیں جس علاقے میں بجلی نہیں، موبائل سگنل نہیں وہاں انٹرنیٹ پر کلاس کیسے لیں؟ یہ مسئلہ بھی کسی قومی سطح کے سیاستدان کو بلوچستان کی جانب مائل نہیں کر سکا۔
جو بلوچ قسمت کی مہربانی اور اپنی محنت سے پڑھ بھی لیں تو نوکری ڈھونڈنا، اس کے لیے دیگر صوبوں اور بڑے شہر والوں کی نسبت زیادہ بڑا چیلنج ہے۔ نوکری مل جائے تو اپنی اور اپنے خاندان کی جان و مال کی حفاظت اور خوشحالی کے لیے بلوچستان سے ہجرت کرجانا سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
بلوچستان کے معاملے میں ہمارے میڈیا کی شان بے نیازی کے تو کیا کہنے۔ سیاست دان بھی پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے اور اس کے سیاسی و معاشی مسئلوں پر زبان کھولنے سے کتراتے ہیں۔
بلوچستان میں پوست کی کاشت کے خلاف بڑا آپریشن
بلوچستان سے سالانہ اربوں روپے کی منشیات بیرون ملک اسمگل ہوتی ہے. فرنٹیئر کور ژوب ملیشیا کے اہلکاروں نے پاک افغان سرحد سے ملحقہ مسلم باغ اور قریبی علاقوں میں ایک آپریشن میں 380 ایکڑ پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کئی ٹن پوست کی خریداری
تیار شدہ پوست کٹائی کے بعد مخصوصی گوداموں میں ذخیرہ کی جاتی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ یہ پوست ٹنوں کے حساب سے خریدتے ہیں اور بعد میں اسے ہیروئن کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ مکران ڈویژن، تربت، مند، گوادر، چاغی اور برامچہ کےعلاقوں میں قائم فیکٹریوں میں دنیا کی اعلیٰ ترین ہیروئن تیار کی جاتی ہے، جو غیر قانونی راستوں سے بین الاقوامی مارکیٹ کو اسمگل کر دی جاتی ہے.
تصویر: DW
ایک منافع بخش کاروبار
زیرنظرتصویر ضلع لورالائی کے علاقے دکی کی ہے، جہاں اس آپریشن کے دوران 60 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تباہ کی گئی۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں پوست کی کاشت لوگوں کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے اس لیے سخت پا بندی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں میں پوست کاشت کرتی ہے۔
تصویر: DW
ٹریکٹروں کا استعمال
پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہمراہ مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران سینکڑوں ایکڑ زمیں پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی ہے ۔ اس کارروائی میں مقامی لوگوں نے بھی فورسز کی معاونت کی اور پوست تلف کرنے کے لیے ٹریکٹر بھی استعمال کئے گئے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
پوست کے نئے کھیت
لورالائی کے علاقے میختر میں پوست کی سب سے زیادہ فصل کاشت کی گئی تھی۔ یہاں 190 ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی گئی۔ منشیات کے اسمگلروں نے اس بارپوست کی کاشت کے لیے یہاں ایسے کھیتوں کا انتخاب کیا تھا جہاں اس سے قبل پوست کاشت نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: DW
زیادہ فصلیں غیر مقامی افراد کی
حکام کے مطابق پوست کی کاشت کے خلاف ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں تلف کی گئی اکثر فصلیں غیر مقامی افراد کی ملکیت تھیں۔ پوست کاشت کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں اور مقامی انتظامیہ کے اہلکار ان مقدمات میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
دالبندین اور ملحقہ علاقے
سکیورٹی فورسز نے پوست کی کاشت تلف کرنے کے لیے ضلع چاغی، دالبندین اور ملحقہ علاقوں میں بھی کارروائی کی، جہاں اب تک 90 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔ یہ پوست مقامی آبادی سے کافی دورپہاڑوں کے دامن میں کاشت کی گئی تھی۔ اس کاروبار میں ملوث افراد ایک ایکڑ زمین پر پوست کاشت کرنے کا دو لاکھ روپے تک معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ اسمگلروں نے یہ زمین پوست کی کاشت کے لیے لیز پر حاصل کی تھی۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
ڈرگ مافیا ایک مدت سے سرگرم
پوست کی فصل کے خلاف جاری اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے دکی کے علاقے میں 65 ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی۔ ڈرگ مافیا کے لوگ بڑے پیمانے پر یہاں ماضی میں بھی پوست کی کاشت کرتے رہے ہیں اور اس سے قبل بھی یہاں سینکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی پوست کی فصل تلف کی جا چکی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
تیار فصلوں کی بھی تلفی
بلوچستان کے پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں اس کارروائی کے دوران پوست کی تازہ اگائی ہوئی فصلوں کے ساتھ ساتھ ایسی فصلیں بھی تباہ کی گئیں جو تیار ہو چکی تھیں۔ حکام کے مطابق کٹائی کے بعد اسمگلر ان فصلوں سے حاصل ہونے والی پوست ہیروئن کی فیکٹریوں میں سپلائی کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
تصویر: DW
1999ء کا پاکستان پوست سے پاک قرار پایا تھا
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامی سطح پر انیس سو ننانوے میں پاکستان کو پوست سے پاک علاقہ قرار دے دیا گیا تھا لیکن اب پھر اس کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجوہات ماہرین زیادہ آمدنی بتاتے ہیں۔ قلعہ سیف اللہ، ژوب اور منزکئی کے علاقے میں کارروائی کے دوران اسمگلروں کے دو ٹھکانے تباہ بھی کیے گئے اور بڑی مقدار میں برآمد کی گئی پختہ پوست بعد میں منزکئی کے ایک میدان میں نذر اتش کر دی گئی۔
تصویر: DW
پوست کی کاشت اور عسکریت پسندی
مکران ڈویژن میں ہیروئن کے بعض اسمگلرز منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں کو بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے وہ اپنے لیے اسلحہ اور سامان خریدتے ہیں۔ اس لیے پوست کے خلاف کی جانے والی اس حالیہ کارروائی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اسمگلروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کو ختم کیا جائے.
تصویر: DW
منشیات کی کاشت اور خرید و فروخت کرنے والے
پوست کی کاشت کےخلاف ہونے والی اس کارروائی کے دوران مختلف علاقوں سے 45 ایسے افراد بھی گرفتار کیے گئے ہیں جو کہ پوست کی فصل کی کاشت اور اس کی خرید و فروخت میں ملوث تھے۔ ان افراد کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان اسمبلی میں پوست کی کاشت کے خلاف منظور کی گئی ایک متفقہ قرارداد میں قلعہ عبداللہ اور دیگر علاقوں میں پوست کی فصلیں تلف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بلوچستان، ڈہائی لاکھ افراد منشیات کے عادی
بلوچستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ منشیات کےعادی افراد کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کل بلوچستان میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد منشیات استعمال کرتے ہیں، جن میں اسّی ہزار افراد ہیروئن کےعادی ہیں۔
تصویر: DW
12 تصاویر1 | 12
سی پیک منصوبے کا کریڈٹ لینے کی ایک دوڑ سی ہے لیکن کوئی سیاسی لیڈر یہ نہیں بتائے گا کہ اس نے کتنی بار گوادر کے قدیم رہائشی علاقوں یا پھر ملک کے چولہے جلانے والے علاقے سوئی کا دورہ کیا، وہاں کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کی۔
بلوچ نوجوانوں کو اس مٹی سے پیار ہے، وہ سسٹم سے نالاں ہیں۔ وہ معاشرتی ناانصافی کے خلاف بولتے ہیں۔ وہ ہمارے چپ رہنے پہ نالاں ہیں۔ وہ بہتری کے خواہاں ہیں لیکن نظر انداز کیے جانے والے رویوں سے نالاں ہیں۔
یہ نوجوان بلوچ لاپتا افراد کے پتے بھی پوچھتے ہیں اور سانحہ اورماڑہ میں نشانہ بننے والے پاکستانی فوج کے جوانوں پر غمگین بھی ہیں۔
اگر واقعی بلوچستان کی زمین پہ پاکستانیوں کے خون کو بہنے سے روکنا ہے، تو مسائل کی جڑ تک پہنچنا ہو گا، اگر علیحدگی پسند مسلح تحریک کو ختم کرنا ہے تو ہمیں ان معاشی اور معاشرتی ناانصافیوں، لاتعلقی کے عمومی رویوں اور سیاسی حقیقتوں پرکھل کر بات کرنا ہوگی، ان کا عسکری نہیں سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
بلوچستان کے قدرتی وسائل، امن و امان کے مسائل اور بلوچ قبائل، بس یہی تین معاملے ہیں، جن میں ساری کہانی پنہاں ہے۔ ان معاملات میں درد چُھپا ہے اور درد کا علاج بھی۔ بلوچستان کے مسئلے پر بات چیت کے لیے کسی سانحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ وہ جو آغازِ حقوق بلوچستان نام سے ایک سیاسی پیکج متعارف کرایا گیا تھا، وہ آتی جاتی حکومتوں کے بیچ نامکمل سا رہ گیا۔
کچھ اور نہیں کم از کم اسی کو مستقل قومی پالیسی بنالیں۔ کریڈٹ کا کوئی چکر ہے تو اس کا نام بدل دیں لیکن کسی نتیجے پر تو پہنچیں، قومی ترجیحات میں بلوچستان کی بات تو کریں۔
سیاست دان اپنی سیاست جانیں، اسٹیبلشمنٹ اپنا زور بازو دیکھے، ماہرین معاشیات نفع نقصان ناپیں لیکن ہم لکھنے لکھانے والے لوگوں کو آواز بلند کرتے رہنا ہو گا۔ اس گرداب کو، اس سراب کو ، اور بے سمت دائرے کو کہیں سے تو ٹوٹنا ہوگا۔
کوئی ایسا سماجی مسئلہ نہیں ہے، جس کا حل خود انسان کے پاس نہ ہو، بے شک وہ اپنے ہی دشت میں بھٹکتے بلوچستان کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔