اپنے ہی ہیروں کی آمدن سے محروم افریقی ممالک کا المیہ
26 فروری 2023
بر اعظم افریقہ میں ہیروں کی غیر قانونی تجارت نے مقامی لوگوں کو ترقی اور خوشحالی کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔ روس سمیت طاقتور ممالک کے اسمگلر ہیروں کی مدد سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں ملوث ہیں۔
اشتہار
افریقہ کے ہیروں سے مالا مال ممالک میں اس قیمتی ترین شے کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن مقامی لوگوں کے معیار زندگی میں بہت کم بہتری لاتی ہے۔ تاہم بوٹسوانا کو اس معاملے میں استثنٰی حاصل ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زیریں صحارا افریقہ کے سب سے خوشحال ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نے ہیروں کی صنعت کے اندرونی حالات سے واقف افراد اور ماہرین سے پوچھا کہ افریقہ کے ان ممالک میں کیا ہوتا ہے، جہاں سماجی و اقتصادی فوائد حاصل کیے بغیر جواہرات نکالے جاتے ہیں۔
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) میں افریقی ڈائمنڈ کونسل کے صدر ڈاکٹر ایمزی فُولا اینگیگے کا کہنا ہےکہ وسیع پیمانے پر لالچ، بعد از نوآبادیاتی علیحدگی، نیز پبلک سیکٹر اور حکومتی جوابدہی کی کمی کی وجہ سے عدم استحکام اور تنازعات کی ایک تاریخ ہے۔
اینگیگےکا کہنا ہے کہ کانگو کے کچھ خطوں میں تنازعات کا منظر نامہ دوسرے افریقی ممالک میں بار بار دیکھا جاتا ہے، جہاں معدنیات کی بہتات ہے اور یہ کہ ان ممالک کو جان بوجھ کر سیاسی اور سماجی عدم استحکام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہیروں کی غیر قانونی کان کنی
کانگو، انگولا، موزمبیق اور افریقہ کے بہت سے دوسرے معدنیات سے مالا مال ممالک میں جو ایک چیز مشترک ہے وہ معدنی وسائل کے استحصال کی دو الگ الگ منڈیاں ہیں۔ ان میں ایک قانونی طریقے سے باضابطہ طور پر ہیروں کی کان کنی کی صنعت ہے جبکہ دوسری ایک خفیہ صنعت ہے، جس پر کان کنوں اور ان کے کفیلوں کا غلبہ ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ ہیروں کی پیداوار اور تجارت کی خفیہ مارکیٹ کیسے چلتی ہے، ڈی ڈبلیو نے کانگو کی سرحد پر واقع انگولا کے صوبے لنڈا نورٹے میں ہیروں کی کان کنی کے قصبے کافونفو کا دورہ کیا۔
کائینگو اڈیلینو دس سال سے زائد عرصے تک ہیروں کے ایک غیر رسمی کارکن یا گیریمپیروس رہے ہیں۔ 49 سالہ اڈیلینوکا کہنا ہے کہ ایک عام اصول کے طور پرگیریمپیروس کے گروپوں کے اسپانسرز ہوتے ہیں، جو انہیں کان کنی کے لیے ادائیگی کرتے اور ہیرے خریدتے ہیں۔
سینیگال، چین، فرانس، اریٹیریا، گھانا اور جمہوریہ کانگو کے شہری قیمتی پتھروں کی خرید و فروخت کے لیے پوشیدہ بازار پر غلبہ رکھتے ہیں، خاص طور پر گیریمپیرو کے ذریعے ہیروں کی کان کنی پر۔
ایک کفیل گیرمپیروز کو کان میں ان کی زندگی گزارنے کے لیے ضروری سامان مہیاکرتا ہے، جس کے بعد اس سامان کی قیمت ہیروں کی ادائیگی سے کاٹ لی جاتی ہے جو گیریمپیروس ہیرے بیچ کر کماتے ہیں۔
اڈیلینو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''آخری بار جب میں نے ہیرا بیچا تو اس کی قیمت 1,250 ڈالر تھی۔ یہ حقیقی قیمتیں نہیں ہیں کیونکہ ہم سے ہیروں کی خریداری کے لیے جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس سے مختلف ہے، جو ہیروں کی فروخت کے بازار میں ہوتا ہے۔‘‘
کافونفو میں غیر رسمی کارکنوں کی جانب سے نکالے گئے ہیروں کے خریدار ایک اسپانسر یا سرمایہ کار کے طور پر کسی بھی ہیرے کی قیمت فروخت کا پچاس فیصد حصہ پہلے ہی اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کے بعد بقیہ پچاس فیصد رقم گریمپیروس میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔
ہیروں سے متعلق اہم اور دلچسپ حقائق
ہیرے دولت اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ لافانیت اور طاقت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ صدیوں سے مسحور کن اور چمکتے ہوئے یہ ہیرے حقیقت میں کوئلے اور بلیک کاربن (گریفائٹ) کا مجموعہ ہیں، جو زمین کے اندرونی حصے میں بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sotheby's
ہیرے کیسے بنے؟
ہیرے لاکھوں سال پہلے زمین کے بیرونی خول سے سینکڑوں کلومیٹر نیچے اندرونی پرتوں میں بنے تھے۔ سخت زمینی دباؤ اور انتہائی درجہ حرارت کاربن کے ایٹموں کو ٹھوس کرسٹل کی شکل فراہم کرتے ہیں اور اس طرح خام ہیرے تیار ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آتش فشاں ہیرے بھی اگلتے ہیں
آتش فشاں پھٹتے ہیں تو یہ خام ہیرے زمین کی بالائی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہیروں کو آتش فشاں کی چٹانوں میں تلاش کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sotheby's/D. Bowers
جوہرات: جتنا نایاب، اتنا زیادہ مہنگا
ہیرے دیگر جواہرات کی طرح ہی ہیں لیکن یہ ایسی نایاب معدنیات ہے، جس کا رنگ، خالص پن، شفافیت اور مضبوطی اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ ہر قسم کا قیمتی ہیرا ایک خاص کیمیائی ساخت پر مبنی ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیروں کی قیمت
ہیرے کے رنگ کے ساتھ ساتھ اسے تراشنے کا عمل اسے مزید منفرد بنا دیتا ہے۔ ہیرا جتنا نایاب ہو گا، اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ ایک ہیرے کی قیمت اس کی شفافیت، رنگ، تراش اور قیراط طے کرتے ہیں۔
تصویر: DW/A. André
وزن کی اکائی قیراط
ایک ہیرے کے وزن کی پیمائش قیراط میں کی جاتی ہے۔ قدیم زمانے میں ایک قیراط خروب نامی درخت کی خشک پھلیوں کے ایک بیج کا وزن تھا۔ بحیرہ روم کے اس سدا بہار درخت کے بیجوں کو صراف وزن کی اکائی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس درخت کے بیچوں کی ساخت تقریباﹰ ایک جیسی ہی ہوتی ہے اور ایک کا وزن تقریبا دو سو ملی گرام ہوتا ہے۔ یعنی ایک قیراط 0,2 گرام کے برابر ہے۔
تصویر: Reuters/D. Balibouse
'بلڈ ڈائمنڈز‘ کی تجارت
سب سے زیادہ ہیرے نکالنے والے ممالک میں روس، بوٹسوانا، کانگو، آسٹریلیا اور کینیڈا شامل ہیں۔ ہیروں کی غیر قانونی تجارت بھی کی جاتی ہے۔ آسان لفظوں میں 'بلڈ ڈائمنڈز‘ ان ہیروں کو قرار دیا جاتا ہے، جو افریقہ کے جنگ زدہ علاقوں سے اسمگل کیے جاتے ہیں اور ان کی کمائی سے باغی گروپ اپنے تنظیموں کو چلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
'بلڈ ڈائمنڈز‘ پر پابندی
سن دو ہزار تین کے کمبرلے عدالتی فیصلے میں ایسے ہیروں کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اب ہر ہیرے کی قانونی حیثیت ایک سند سے ثابت کی جاتی ہے کہ یہ کس علاقے سے ہے اور کس کمپنی نے نکالا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
ہیروں کا استعمال
ہیرے سائنس کے لیے بھی انتہائی دلچسپ ہیں کیوں کہ یہ دنیا کا سخت ترین میٹریل ہیں۔ ایک ہیرا آسانی سے ماربل یا گرینائٹ کو کاٹ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرل یا پھر کاٹنے کی مشینوں میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر طب میں بھی 'ڈائمنڈ ڈرل‘ کا استعمال ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Keystone/M. Trezzini
مصنوعی ہیروں کا کاروبار
اس مقصد کے لیے اصلی ہیروں کا استعمال بہت ہی مہنگا پڑتا ہے، لہذا صنعتی سطح پر تیار کردہ مصنوعی ہیرے استعمال کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں جرمن شہر فرائی برگ کے سائنسدانوں نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا، جس کے تحت مصنوعی ہیرے بڑی تعداد میں اور کم وقت میں تیار کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم ان ہیروں کی تیاری کا مقصد زیورات کی بجائے صنعتی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔
تصویر: CC BY-SA 3.0/Stapanov Alexander
نیپچون پر ہیروں کی بارش
سن دو ہزار سترہ میں سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ تجرباتی سطح پر یہ ثابت کیا تھا کہ نیپچون پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔ ہمارے نظامِ شمسی میں نیپچون آٹھواں اور سورج سے بعید ترین سیارہ ہے۔ سائنسدانون کے مطابق اس کی ٹھوس سطح کو برف نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہ کائناتی برف ہائیڈرو کاربن، پانی اور امونیا پر مشتمل ہے۔
تصویر: Fotolia/Stefan Gräf
10 تصاویر1 | 10
ترقی یافتہ دنیا کی 'آنکھیں بند‘
افریقی ڈائمنڈ کونسل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ افریقی سے نکالے جانے والے خام ہیروں کی اسمگلنگ کی صورت میں افریقی ہیروں کی کل پیداوار کا اٹھائیس سے بتیس فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر اینگیگے کا کہنا ہے کہ آمدنی کا تعلق خاص طور پر خام اور قدرتی، غیر دستاویزی یا غیر تصدیق شدہ ہیروں سے ہوتا ہے، جو افریقی براعظم پر ہیروں کی کان کنی والے ممالک سے باہر ہیروں کے مراکز میں اسمگل کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''بعض صورتوں میں بہت سے غیر قانونی ہیرے ضبط کر لیے جاتے ہیں اور وہ ان ممالک کی ریاست کی ملکیت بن جاتے ہیں جو انہیں ضبط کرتے ہیں۔ لہٰذا 'ترقی یافتہ دنیا‘، یقینی طور پر اس قسم کی کوتاہی کی طرف آنکھیں، کان اور منہ بند کرنے کی زمہ دار ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے ہیروں کی جغرافیائی سیاست اور خام ہیروں کی دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے طریقہ کار کے ایک ماہر سے بات کی جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
اس ماہر کا کہنا تھا، ''بعض اوقات ہیروں کو انگولا کی کانوں سے چوری کر کے کانگو لے جایا جاتا ہے اور پھر ان دستاویزات کے ذریعے دبئی برآمد کیا جاتا ہے، جن میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہیرے کانگو سے آئے ہیں، جبکہ اصل میں یہ انگولا سے آتے ہیں۔‘‘ تاہم افریقی ڈائمنڈ کونسل کے صدر کے مطابق اس طرح کی سرگرمیوں سے نمٹنے کا واحد طریقہ غربت سے لڑنا ہے۔
اشتہار
روسی جنگ کو ہوا دیتے ہیرے
انگولا کے ایک صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور معروف کتاب ''بلڈ ڈائمنڈز‘‘کے مصنف رافیل مارکیز ڈی موریس ہیروں کی تصدیق کے عالمی طریقہ کار یا ''کمبرلے عمل‘‘ کو ناقص قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یک تنازعہ ہے، مقامی کمیونٹیز کا استحصال ہے، روس کے الروسا گروپ کی طرف سے ہیرے نکالنے میں مقامی برادریوں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔‘‘
الروسا انگولا اور افریقہ کے دیگر حصوں میں کان کنی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ''یہ کمبرلے عمل کا مسئلہ ہے۔ یہ کچھ ممالک کے اسٹریٹجک مفادات کے مطابق کام کرتا ہے۔‘‘ روسی ہیروں کی کمائی کا یوکرین کی جنگ میں ایک کردار ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والے ڈائمنڈ جیو پولیٹکس کے ماہر اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا،''الروسا آپریشن سے ہیروں کی آمدنی کو ہدف بنانا اہم ہے تاکہ یوکرین میں جنگ کے لیے روسی پیسے کے فوری بھاؤ کو روکا جا سکے۔‘‘ اس ماہر کا مزید کہنا تھا، ''بیلجیئم کے وزیر اعظم اپنے فوجیوں کو یوکرین بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں جب کہ بیلجیئم اپنے شہر اینٹورپ میں روسی خام ہیروں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی رقم ماسکو کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ؟‘‘
نیوسا ای سلوا (ش ر⁄ ع آ)
ہیرے: افریقہ کی خوش قسمتی بھی اور بدقسمتی بھی
حال ہی میں ایک غیر تراشیدہ ہیرے کی قیمت 7.7 ملین ڈالر لگائی گئی۔ سیرا لیون حکومت کو یہ ہیرا بطور عطیہ ملا تھا لیکن اسے کم قیمت لگنے کی وجہ سے فروخت نہیں کیا گیا۔ جانیے دنیا کے سب سے بڑے اور قیمتی ترین ہیروں کے بارے میں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
سیرالیون کے لیے ایک نعمت؟
ایمانوئل ماموح پیشے کے اعتبار سے ایک پادری ہیں لیکن اپنے فارغ اوقات میں وہ کان کنی بھی کرتے ہیں۔ مارچ میں ایمانوئل کو 706 قیراط کا ایک ہیرا ملا تھا، جسے انہوں نے حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کی قیمت 7.7 ملین ڈالر لگی ہے لیکن کم قیمت کی وجہ سے آئندہ ہفتوں کے دوران بیلجیم میں اسے دوبارہ نیلامی کے لیے پیش کیا جائے گا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
سیرالیون کا ستارہ
1972ء میں سیرالیون میں ایک بڑا ہیرا دریافت ہوا تھا۔ ’سیرالیون کا ستارہ‘ نامی اس غیر تراشیدہ ہیرے کا مجموعی وزن 969 قیراط تھا اور اسے 17 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہیروں کی دولت سے مالا مال اس ملک کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہیروں کی غیرقانونی تجارت اس ملک میں خانہ جنگی کی وجہ بنی اور اس دوران ہزارہا لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
بوٹسوانا: قیمتی ترین ہیروں کی دنیا
اگر قیمتی ترین اور بڑے ہیروں کی بات کی جائے تو بوٹسوانا پہلے نمبر پر آتا ہے۔ یہاں سے 1,111 قیراط کا ہیرا دریافت ہوا، جو ایک ٹینس بال جتنا بڑا تھا۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہیرا ہے۔ اسی کان میں سے بعدازاں مزید دو بڑے اور اعلیٰ معیار کے ہیرے ملے تھے۔
دنیا کا مہنگا ترین ہیرا ساؤتھ افریقہ سے ملا۔ ’’پِنک اسٹار‘‘ نامی یہ ہیرا 71,2 ملین ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ 132.5 قیراط کے اس ہیرے کو تراشنے میں دو سال لگے۔ اب 59.6 قیراط کے اس گلابی ہیرے کو دنیا کا نفیس ترین ہیرا قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters
ہیرے خواتین کے بہترین دوست
اداکارہ الزبتھ ٹیلر دلفریب اور چمکدار ہیروں سے محبت کی وجہ سے مشہور تھیں۔ 2011ء میں ان کی وفات کے بعد ان کا ایک نیکلیس سیٹ 140 ملین ڈالر میں فروخت ہوا۔ حالیہ چند برسوں میں ہیروں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ بڑھتی ہوئی قیمتیں افریقہ کے لیے امید کی کرن ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Melzer
گلیمر اور عیش و آرام سے دور
ہیروں کی تلاش میں یہ غریب کارکن زمبابوے کی کانوں میں بیلچوں اور ہاتھوں سے زمین کھودنے میں مصروف ہیں۔ انہیں ہمیشہ یہ امید رہتی ہے کہ کوئی ایک ہیرا انہیں غربت کی دلدل سے نکال دے گا۔ لیکن ایسے خوش قسمت زیادہ تر وہ ثابت ہوتے ہیں، جو بڑی بڑی مشینوں اور بڑے سرمائے کے ساتھ وہاں کان کنی میں مصروف ہیں۔