ایک ایسے وقت پر جب پاکستان میں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے۔
اشتہار
پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں حراست میں لے لیا ہے۔ ایک اور پیش رفت میں ایف آئی اے کے حکام نے مسلم لیگ ن کے رہنما میاں شہباز شریف کے صاحبزادے اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز شریف کو بھی ملک سے باہر جانے سے روک دیا۔ لاہور ایئر پورٹ پر منگل گیارہ دسمبر کی صبح حمزہ شہباز کو بتایا گیا کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل ہے اور وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم اورنگ زیب نے خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری اور حمزہ شہباز کے ملک سے باہر جانے سے روکے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب بہت سے دوسرے مقدمات میں کارروائی کیوں نہیں کر رہی۔
نیب نے مریم اورنگ زیب کے اثاثوں کی بھی چھان بین شروع کر دی ہے۔ ترجمان نیب کے مطابق مریم اورنگ زیب کے خلاف نیب کو شکایت موصول ہوئی تھی اور ان کے خلاف شکایت کنندہ کا نام ابھی نہیں بتایا جا سکتا۔ ترجمان کے مطابق شکایت کنندہ نے مریم اورنگ زیب کے اثاثوں کی تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ اب آشیانہ کیس میں مزید پیش رفت ہو گی اور مزید گرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔
ادھر اسلام آباد میں صحافیوں کی طرف سے پوچھے جانے والے اس سوال کے جواب میں کہ آپ آج کل ہنس کیوں نہیں رہے، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا، ’’ہنسنا کیسا، ہم تو کھل کر رو بھی نہیں سکے۔ ‘‘ اسی سوال کے جواب میں نواز شریف نے مزید کہا، ’’میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو بہت مختصر جواب دیا۔ لیکن یہ جواب میں نے دل سے دیا ہے۔‘‘
تعزیت کے لیے کون کون جاتی امرا گیا؟
بیگم کلثوم نواز کی آخری رسومات جمعے کے دن ادا کی جا رہی ہیں۔ جمعرات کے دن ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جاتی امرا پہنچی، جہاں انہوں نے نواز شریف اور ان کے گھر والوں سے تعزیت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Dar
نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کا ہجوم۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کا رش۔ ملک بھر سے ہزاروں لوگ جاتی عمرہ پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
آزاد کشمیر کے صدر اور وزرا بھی نواز شریف سے تعزیت کرنے جاتی امرا پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
جاتی عمرہ میں کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے آنے والے لوگ دعا مانگتے ہوئے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے جاتی عمرہ پہنچے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جاتی عمرہ پہنچنے پر سیلفی بنوالے کے خواہش مند کارکنوں کے نرغے میں۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور بھی کے پی کے سے جاتی عمرہ تعزیت کرنے آئے۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
جمعرات کے روز نواز شریف کے گھر کے باہر کسی قسم کی سیکورٹی نہیں تھی اور نہ ہی روایتی پروٹوکول نظر آیا۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
نوز شریف کی رہائش گاہ کے باہر کافی دور تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں موجود رہیں۔
تصویر: DW/Tanvir Shahzad
10 تصاویر1 | 10
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان ساری کارروائیوں میں سیاست زیادہ ہے، اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کرنے سے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ مل رہا ہے اور وہ اس عمل کو عوام کے سامنے احتساب کے حوالے سے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے خیال میں اس طرح کا فائدہ کسی بھی حکومت کو صرف پہلے چھ ماہ تک ہی مل سکتا ہے کیونکہ چھ ماہ کے بعد احتساب پہلے سے دوسرے نمبر پر آ جائے گا اور حکومت کی کارکردگی اولین اہمیت کا موضوع ہو گا، جس کے بارے میں لوگ سوال بھی پوچھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یوں احتسابی کارروائیوں کے یہ آخری جھٹکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احتساب کا نعرہ بھی اپنی کشش کھو دے گا۔
پاکستان کے ایک اور صحافی خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اپوزیشن کے خلاف احتساب کے نام پر کی جانے والی کارروائیوں کے حوالے سے پاکستانی رائے عامہ بٹی ہوئی ہے۔ ان کے بقول ایک ایسے وقت پر جب مسلم لیگ ن خاموشی کے ساتھ ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر چل رہی ہے اور پرویز رشید اور خواجہ آصف جیسے لیڈر بھی زیادہ بات نہیں کر رہے، ایسے میں احتساب کے شکنجے میں ایسے مسلم لیگی لیڈر آئے ہیں، جو زیادہ بیان بازی کر رہے تھے۔ فاروقی کے بقول العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ بھی اگلے چند دنوں میں آنے والا ہے، پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی گرفتاری بھی کسی بھی وقت عمل میں آ سکتی ہے، اس لیے اگلے چند ہفتے پاکستان میں گرما گرمی کے ہو سکتے ہیں۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ میں خواجہ سعد رفیق کو ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق سمیت کمرہ عدالت میں پہلے سے موجود نیب حکام نے اس وقت حراست میں لے لیا، جب جسٹس طارق کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے خواجہ برادران کی طرف سے پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کے حوالے سے دائر کردہ درخواست خارج کر دی۔ خواجہ برادران پیرا گون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں عبوری ضمانت پر تھے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ لاہور کی پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی ایل ڈی اے سے غیر منظور شدہ ہے اور اس کے قیام کے لیے زمین غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی تھی۔ نیب حکام نے دعویٰ کیا کہ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان میں سے ہیں اور سوسائٹی کے ایک ڈائریکٹر قیصر امین بٹ اس بارے میں احتساب عدالت کے روبرو اپنا بیان بھی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
دوسری جانب خواجہ سعد رفیق کے وکلاء نے جواب میں کہا کہ ان کے مؤکل کا پیراگون سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس کی تفتیش کے سلسلے میں بھی خواجہ برادران نیب سے مکمل تعاون کر رہے ہیں، لہٰذا شواہد کے حصول کے لیے ان کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد جسٹس طارق عباسی نے عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالتی فیصلے کے بعد نیب حکام نے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو لاہور ہائی کورٹ کے احاطے ہی سے گرفتار کر کے نیب لاہور کے ہیڈکوارٹر میں منتقل کر دیا۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔