اڈومینی مہاجر بستی خالی کرانے کی کارروائی شروع
24 مئی 2016منگل کے روز اس کارروائی کے آغاز میں مظاہرین سے نمٹنے والی پولیس کے چار سو اہلکاروں نے حصہ لیا، جب کہ اس علاقے کو چاروں جانب سے بند کر دیا گیا تھا۔
مہاجرین کے بحران سے متعلق حکومتی ترجمان گیروگوس کیریٹِس کا کہنا ہے کہ پولیس سے کہا گیا ہے کہ وہ مہاجرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے سے ممکنہ حد تک گریز کرنے کی کوشش کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اڈومینی کا پورا علاقہ ان مہاجرین سے خالی کرانے میں سات تا دس روز لگ سکتے ہیں۔
منگل کے روز آپریشن کے آغاز پر پہلی چھ بسیں اڈومینی سے 340 مہاجرین کو لے کر یونانی شمالی شہر تھیسالونیکی روانہ ہوئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ آپریشن کے آغاز اور مہاجرین کو بسوں میں سوار کرنے کے عمل میں صرف دو گھنٹے خرچ ہوئے جب کہ اس موقع پر تشدد کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
یونان اور مقدونیہ کے درمیان سرحدی گزر گارہ کے قریب واقع علاقے اڈومینی میں قریب ساڑھے آٹھ ہزار مہاجرین موجود ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، افغانستان اور عراق سے ہے۔
مارچ میں مقدونیہ کی جانب سے اپنی سرحدیں بند کر دینے کے بعد اس گزر گاہ کو استعمال کرتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپ کا رخ کرنے والے ہزاروں مہاجرین یہاں پھنس کر رہ گئے تھے اور یہ گزر گاہ کھل جانے کی امید میں ان مہاجرین نے یہیں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ حکام کے مطابق ایک وقت ایسا بھی تھا، جب یہاں 14 ہزار سے زائد مہاجرین موجود تھے۔
اڈومینی میں زیادہ تر مہاجرین نہایت چھوٹے خیموں میں رہ رہے ہیں، جب کہ یہاں مختلف امدادی اداروں نے قدرے بڑے ٹینٹ بھی لگا رکھے ہیں، تاکہ بڑے خان دان یہاں قیام کر سکیں۔ یونانی حکام اس علاقے میں صفائی کے لیے عملہ بھیجتی رہتی ہے اور گشتی بیت الخلا بھی لگائے گئے ہیں، تاہم بارشوں کی وجہ سے اس مقام پر کئی تالاب بن چکے ہیں اور ہر طرف گندگی پھیلی نظر آتی ہے۔
یہ کھلا زمینی علاقہ حالیہ کچھ عرصے میں ایک قصبے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا، جہاں مختلف مہاجرین نے اسٹال لگانا شروع کر دیے جب کہ کچھ جگہوں پر روٹی اور کھانے پینے کی دیگر چیزوں سمیت جگہ جگہ دکانیں نظر آنے لگیں۔
یونانی حکام کا کہنا ہے کہ یہاں موجود مہاجرین کو قریبی شہر میں تعمیر کئے گئے نئے اور باقاعدہ کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔