سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو اڈیالہ جیل میں ہی رکھنے کے حتمی فیصلے کے بعد پاکستان کی اس جیل کے 'خصوصی مہمانوں' کی فہرست میں دو نئے ناموں کا اضافہ ہو گیا ہے۔
اشتہار
پاکستان کی سیاسی تاریخ بیان کرتے ہوئے جہاں چند پارکوں (لیاقت باغ، راولپنڈی)، چوکوں (ریگل چوک، لاہور) ،سڑکوں (شاہراہ فیصل، کراچی) اور ہالوں (بختیار لیبر ہال، لاہور، نشتر ہال، پشاور) کے ذکر سے مفر نہیں، وہیں اس تاریخ کے چند انتہائی تاریک اور روشن ابواب چند جیلوں میں رقم ہوئے۔ ان قید گاہوں میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور انکی بیٹی کے حوالے سے چند ماہ قبل ہی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اڈیالہ جیل کی 'صفائی' شروع کروا دی گئی ہے۔ اس وقت بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اس نوعیت کی افواہیں پھیلانے کا مقصد نواز شریف کو ڈرانا ہے۔ نواز شریف کو بزدلی اور سہل طلبی کا طعنہ 1999 سے دیا جا رہا ہے جب انہوں نے ایک آمر کے ساتھ 'ڈیل' کر کے سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھاجو انکے سیاسی کیرئیر پر ایک داغ بن گیا۔ عام خیال یہی تھا کہ خوش خوراکی کے رسیا اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے عادی نواز شریف جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا نہیں چاہیں گے اوران سے بچنے کے لیے ہر سمجھوتہ کر گزریں گے۔
نوازشریف اور مریم نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں رکھنے، انہیں بی کلاس دینے اور عدالتی کارروائی جیل ہی میں کرنے کے فیصلوں نے ایک مرتبہ پھر اڈیالہ جیل کو تمام تر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ آئندہ دنوں میں نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا بھی اسی چار دیواری پر اپنے کیمرے اور توجہ مرکوز کرے گا۔
تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں کل اٹھارہ جیلیں تھیںجن میں راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل ایک اہم جیل تھی جہاں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ اس سے قبل اس کی ایک کوٹھڑی میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 1988 میں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کو جنرل ضیا الحق کے حکم پر منہدم کرکے اس قطعہ اراضی پر جناح پارک بنا دیا گیا۔
بعض سیاسی مورخوں خصوصا پیپلز پارٹی سے وابستہ دانشوروں کا خیال ہے کہ بھٹو کی پھانسی، کال کوٹھڑی اور انکے آخری لمحات سے متعلق ہرعلامت کو مٹانے کا مقصد یہ تھا کہ پیپلزپارٹی مستقبل میں اسے سیاسی تحریکوں کے نکتہ آغاز کے طور پر استعمال نہ کر سکے۔ دوسری طرف فوجی آمر ضیا الحق چاہتا تھا کہ مستقبل میں اس جیل کو میوزیم میں تبدیل کرکے اسے جمہوریت، حقوق اور آزادیوں کے لیے کی جانے والی پاکستانی عوام کی جدوجہد کا مرکز اور استعارہ نہ بنا دیا جائے۔ جناح پارک میں ایک چھوٹی سی یادگار اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں وہ پھانسی گھاٹ تھا جس پر بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ لیکن یہ یادگار میکڈونلڈ، سینما اور بچوں کے جھولوں وغیرہ میں کہیں گم ہو چکی ہے اورعموما" نظر نہیں پڑتی۔
1988 میں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے انہدام سے دو برس قبل، 1986 میں راولپنڈی کے اڈیالہ روڈ پر، ڈسٹرکٹ کورٹس سے 13 کلومیٹر دورایک نئی جیل تعمیر کی گئی جسے سنٹرل جیل راولپنڈی کا نام دیا گیا۔ یہ اڈیالہ جیل سے ہی مشہور ہے۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مشرف آمریت میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزاکے تحت گیارہ فروری 2001 میں گرفتار کیا گیا اور پانچ برس بعد وہ سات اکتوبر 2006 میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ تھا کہ انہوں نے بطور سپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب 'چاہ یوسف سے صدا' جیل ہی میں لکھی تھی۔
اڈیالہ جیل کو اس وقت عالمی شہرت ملی جب برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے پاکستان کے دورہ کے دوران اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف سے اپنے ایک شہری مرزا طاہر حسین کی پھانسی کو موخر کرنے کی درخواست کی۔ یہ برطانوی شہری ایک ٹیکسی ڈرائیور کو قتل کرنے کے الزام 1988 سے قید تھا۔ پاکستان کی اعلی عدالت نے اسے بےقصور قرار دے دیا تھا مگر پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے اسے مجرم قرار دیا اور پھانسی کی سزا سنائی۔
مرزا طاہر حسین کی پھانسی کی سزا تین مرتبہ موخر کی گئی۔ آخرکار برطانوی حکومت اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دباؤ پر پرویز مشرف نے بطور صدر انکی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی لیکن چونکہ وہ اٹھارہ برسوں سے اڈیالہ جیل میں تھے اور اچھے چال چلن کے حامل تھے لہذا 2006 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔
اڈیالہ جیل کے ایک اور 'نامور' قیدی کالعدم لشکر طیبہ کے سربراہ ضیا الرحمن لکھوی تھے جنہیں 7 دسمبر 2008 کو ممبئی حملوں کے الزام میں گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں قید رکھا گیا۔ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں ضمانت پر انکی رہائی کے موقعہ پر10 اپریل 2015 کو بی بی سی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، "پاکستانی حکومت اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا دعویٰ کرتی رہی ہے لیکن اڈیالہ جیل میں ضیا الرحمن لکھوی اور انکے چھ ساتھیوں کو غیر معمولی سہولتیں حاصل تھیں۔ کئی کمروں پر مشتمل جیل کا ایک حصہ انکی صوابدید پر تھا جہاں انکے پاس ٹیلی ویژن، موبائل فون کے علاوہ، کسی روک ٹوک اور پیشگی اجازت کے بغیر، مہمانوں سے ملنے کی اجازت تھی۔ "
اڈیالہ جیل کے ایک اور معروف مہمان ممتاز قادری تھے جنہیں 4 جنوری 2011 کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ 10 جنوری کو انہیں 14 دن کے ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا اور سیکورٹی خدشات کے سبب انکا مقدمہ بھی جیل کے اندر ہی چلایا گیا۔ 29 فروری 2016 کو صبح ساڑھے چار بجے اسی اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی۔
معروف امریکی اداکار، سٹنٹ میں اور پوکر کے کھلاڑی ایرک انتھونی اوڈے کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں، 15 فروری 2002 کو، گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا اور وہ اپنی دانست میں چمڑے کی مصنوعات کی تجارت کر رہے تھے اورمنشیات کی موجودگی سے لاعلم تھے۔ اس واقعہ کو اسقدر عالمی شہرت ملی کہ نیشنل جیوگرافک نے اس پر ایک دستاویزی فلم بنائی۔
1999 میں اسوقت کے فوجی سربراہ پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لا لگائے جانے کے بعد میاں نواز شریف کو ایک فوجی عدالت نے اغوا، اقدام قتل، طیارہ اغوا، دہشت گردی اور کرپشن کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا کر اڈیالہ جیل میں قید کر دیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن اور سعودی شاہ فہد کی مداخلت کے بعد عدالت نے انہیں سزائے موت دینے سے گریز کیا اور آخر کار فوجی حکومت سے ڈیل کے نتیجہ میں میاں محمد ںواز شریف سعودی عرب جلاوطن کر دیے گئے۔
13 جولائی 2018 کو ایک مرتبہ پھر، معلوم ذرائع سے زیادہ معیارزندگی رکھنے کے جرم میں، گرفتار کر کے اسی اڈیالہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ تاہم اس مرتبہ وہ ڈیل کرکے پاکستان سے باہر جانے کے لیے نہیں بلکہ بیرون ملک سے گرفتار ہونے کے لیے آئے ہیں۔ وہ اسے جمہوری اقدار اور متخب اداروں کی بالادستی اور 'ووٹ کو عزت دینے' کی خاطر دی جانے والی ایک قربانی قرار دے رہے ہیں۔
ایک اور فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ میاں محمد نوازشریف اور انکے داماد کیپٹن صفدر کے ساتھ ساتھ انکی بیٹی مریم نواز بھی اڈیالہ جیل میں قید کی گئی ہیں۔ اڈیالہ جیل کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا ہے۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔