اڑتيس سال قبل لاپتہ ہونے والے شخص کی باقيات دريافت
5 نومبر 2021
اڑتيس برس قبل ايک جرمن شہری امريکا کے ايک پارک ميں لاپتہ ہو گيا تھا۔ اُس وقت اُس کی تلاش کی تمام تر کوششيں بے نتيجہ ثابت ہوئیں مگر اب اس کہانی نے اچانک ايک موڑ ليا۔
اشتہار
روڈی موڈر آج سے قريب اڑتيس سال قبل 'روکی ماؤنٹين نيشنل پارک‘ اسکيئنک کرنے گيا تھا۔ موڈر مغربی جرمنی کا رہنے والا تھا اور اس وقت اس کی عمر ستائيس برس تھی۔ فروری سن 1983 ميں وہ دو يا تين ايام پر مشتمل اسکيئنگ کے ايک ٹور پر روانہ ہوا تھا اور پھر آج تک نہيں ملا۔ اس کی گمشدگی کی رپورٹ چھ دن بعد درج کرائی گئی تھی۔
روڈی موڈر کی کہانی نے گزشتہ برس اگست ميں ايک حيرت انگيز موڑ ليا۔ ايک ہائکر کو پارک کے 'اسکليٹن گلچ‘ نامی علاقے ميں انسانی ہڈياں دريافت ہوئيں۔ اس وقت فوری طور پر تفتيش نہيں کی جا سکی کيونکہ پارک کے عملہ جنگلاتی آگ سے نمٹنے ميں مصروف تھا۔ پھر موسم سرما آ گيا اور عين اسی علاقے ميں شديد برف باری ہو گئی۔
وسطی امريکا کی رياست کولوراڈو ميں 'روکی ماؤنٹين نيشنل پارک‘ ميں عملے نے اس سال پھر يہ کيس اٹھايا۔ پارک رينجرز کو اسکی، چھڑی، جوتے اور ديگر کئی ذاتی اشياء برآمد ہوئيں، جن کے بارے ميں ان کا خيال ہے کہ وہ روڈی موڈر کی ہيں۔ متعلقہ ماہرين ے دانتوں کا معائنہ کر کے شناخت تک پہنچنے کی کوشش کی مگر يہ بھی بے نتيجے ثابت ہوا۔ 'روکی ماؤنٹين نيشنل پارک‘ کے حکام نے پھر بھی يہ کيس بند کر ديا ہے اور وہ باقيات کی منتقلی کے ليے جرمن حکام کے ساتھ رابطے ميں ہيں۔
روڈی موڈر ايک تجربہ کار کوہ پيما تھا۔ وہ امريکا ميں اپنی گمشدگی سے قبل فورٹ کالنز کے علاقے ميں رہ رہا تھا۔ وہ تيرہ فروری سن 1983 کے دن تھنڈر پاس کے راستے اپنے ٹور پر نکلا تھا۔ اس کے ساتھ رہنے والے لڑکے نے انيس فروری کو اطلاع دی کہ روڈی غائب ہے۔ اگلے ہی دن اس کی تلاش کا کام شروع کر ديا گيا ليکن تيس سينٹی ميٹر تک پڑنے والی برف کی وجہ سے حکام اپنا کام صحيح طرح نہيں کر پائے۔ برف کی وجہ سے اس کے پيروں وغيرہ کے نشانات چھپ گئے تھے۔ چار دن کی تلاش کے بعد پارک کے عملے کو صرف اس کی کھانے پينے کی کچھ اشيا مليں۔ بعد ازاں ايک غار کے منہ سے موڈر کا سليپنگ بيگ اور چند ديگر چيزيں ملی تھيں۔ سرچ آپريشن ميں کتے اور ہيلی کاپٹر تک استعمال کيا گيا تھا۔
بعد ازاں اس سال موسم بہار اور موسم گرما ميں کئی مرتبہ اسے تلاش کرنے کی کوششيں کی گئيں جو بے نتيجے ثابت ہوئيں۔
’گھوسٹ شپس،‘ کہانیاں اور حقیقت
اسی ہفتے ایک لاوارث بحری جہاز آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ لیجنڈ بحری جہاز ’فلائنگ ڈچ مین‘ سے لے کر جاپانی ساحلوں پر لاپتہ ہونے والی شمالی کوریائی کشتیوں تک، گھوسٹ شپس کا داستانوں اور حقیقت دونوں میں ہی ذکر ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Dietmar Hasenpusch
ایم وی آلٹا
ایم وی آلٹا نامی یہ بحری جہاز اسی ہفتے آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ یہ جہاز سن 2018 میں خراب ہو گیا تھا اور اس کے عملے نے اسے سمندر میں لاوارث چھوڑ دیا تھا۔ یہ لاوارث بحری جہاز ایک سال سے بھی زائد عرصے تک بحر اوقیانوس میں ہزارہا میل کا سفر کرتا ہوا آخر آئرلینڈ کے ایک ساحل تک پہنچا۔
تصویر: AFP/Irish Coast Guard
فلائنگ ڈچ مین
کیپٹن ہینڈرک فان ڈیر ڈیکن کا ذکر افسانوں میں ملتا ہے اور انہیں ڈچ مین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے1641ء میں ایمسٹرڈم سے ایسٹ انڈیز کا سفر شروع کیا تھا اور اس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں لوٹے تھے۔ کہانی کے مطابق ان کا جہاز ہمیشہ کے لیے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے ڈوب گیا تھا۔ فلائنگ ڈچ مین کو توہم پرست جہاز راں مستقبل کی مشکلات کی ایک علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Photo12/Fine Art Photographs
شمالی کوریا کی کشتیاں
جاپان نے حالیہ برسوں میں اپنے ساحلوں سے لاوارث جہازوں اور کشتیوں کو ہٹانے کا کام شروع کیا۔ ان میں سے زیادہ تر بحری جہاز شمالی کوریا سے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ میں تو عملے کے افراد زندہ حالت میں بھی ملے جبکہ زیادہ تر لاشیں موجود تھیں۔ کچھ پر شبہ تھا کہ وہ شاید شمالی کوریا سے فرار ہو کر جاپانی پانیوں میں پہنچے تھے۔ دیگر کے بارے میں سوچا گیا کہ شاید وہ مچھیرے تھے، جو سمندر میں بہت آگے تک نکل گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/H. Asakawa
ریئون ان مارو
امریکی ساحلی محافظین نے جاپانی لاوارث جہاز ’ریئون ان مارو‘ کو اپریل 2012ء میں الاسکا کے ساحلوں کے قریب تباہ کر دیا تھا۔ یہ جہاز 2011ء میں جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی کے بعد لہروں کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ جہاز ایک سال تک بحرالکاہل میں بھٹکتا رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U.S. Coast Guard
سمندر میں لاپتہ
نینا نامی بادبانی کشتی کی لمبائی پندرہ میٹر کے لگ بھگ تھی۔ یہ کشتی 2013ء میں نیوزی لینڈ سے آسٹریلیا کے سفر کے دوران بحر تسمان میں اچانک غائب ہو گئی تھی۔ اس پر کشتی کے مالک ڈیوڈ ڈائچ، ان کی اہلیہ، ان کا ایک بیٹا اور عملے کے چار ارکان سوار تھے۔ یہ ڈیوڈ کی والدہ کیرل ڈائچ ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی بادبانی کشتی کی ایک تصویر کے ساتھ بیٹھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Zuma Press
سیم رتولنگی پی بی سولہ سو
انڈونیشیا کا جہاز ’سیم رتولنگی سولہ سو‘ اگست 2018ء میں پرسرار طور پر میانمار کے شہر ینگون کے ساحلی علاقے سے ملا تھا۔ میانمار کی نیوی کے مطابق 177 میٹر طویل اس مال بردار جہاز کو کسی کشتی کی مدد سے بنگلہ دیش میں کسی شپ بریکنگ یارڈ تک پہنچایا جا رہا تھا کہ خراب موسم کی وجہ سے وہ تاریں ٹوٹ گئیں، جن کی مدد سے اسے کھینچا جا رہا تھا۔ اس موقع پر تیرہ رکنی انڈونیشی عملے نے اسے لاوارث چھوڑ دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y.A. Thu
ایس وی لوبوو اورلووا
ایک سو میٹر لمبے اس جہاز لوبوو اورلووا کو سابق یوگوسلاویہ میں بنایا گیا تھا۔ اس کا نام سابق سوویت یونین کی ایک اداکارہ کے نام پر رکھا گیا۔ 2010ء میں اس جہاز کو شمالی امریکا کے جزیرے نیو فاؤنڈلینڈ سے کھینچ کر جزائر ڈومینیک کی جانب لایا جا رہا تھا۔ اسی دوران تاریں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کے بعد عملے نے اسے ایک دن کے لیے وہیں چھوڑ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں ڈوب گیا تھا۔