اکتوبر انقلاب کے سو سال بعد ’عظیم‘ سوویت ریاست کا نشان نہیں
عابد حسین
25 اکتوبر 2017
25 اکتوبر سن 1917 کو بالشویک انقلابیوں نے شاہی دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں سرکاری عمارتوں پر قبضہ شروع کیا تھا۔ لینن کی رہبری میں مارکسی سوشلسٹ انقلاب کے بعد سن 1922 میں سابقہ سوشلسٹ سوویت یونین ریاست قائم ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Joe
اشتہار
فروری سن 1917 سے سینٹ پیٹرزبرگ میں خوراک کی عدم دستیابی پر پیدا ہونے والی عوامی بےچینی نے دو انقلابوں کی راہ ہموار کی تھی۔ پہلا فروری کا انقلاب اور پھر سات ماہ بعد سوشلسٹ بالشویک انقلاب۔
روٹی اور دوسرے سامانِ خورد و نوش کی عدم دستیابی سے پیدا ہونے والے انقلاب کی شدت نے روسی بادشاہت کو ختم کر دیا۔ آخری روسی بادشاہ زار نکولس دوم نے تخت سے دو مارچ کو دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ فروری انقلاب کے بعد قائم ہونے والی عبوری روسی حکومت بھی مستحکم نہ ہو سکی۔ یہ حکومت عوامی بے چینی میں کمی لانے میں ناکام رہی اور لینن کی قیادت میں اٹھنے والے مارکسی بالشویک انقلاب کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔ بالشویک انقلابیوں کے سامنے عبوری حکومت محض ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔
بالشویک انقلاب کے بعد لینن نے اپنے ساتھیوں سمیت سن 1922 میں جس نے وسیع و عریض کمیونسٹ اور سوشلسٹ ریاست کو قائم کیا تھا، اُس کا سرکاری نام یونین آف سوشلسٹ سوویت ریپبلک (USSR) رکھا گیا۔ روسی بادشاہت کے کھنڈرات پر قائم ہونے والی سوشلسٹ ریاست اپنے قیام کی تقریباً سات دہائیاں مکمل کرنے کے بعد سن 1991 میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ اِس ریاست کے زوال کے بعد بالٹک، بعض یورپی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو مکمل آزادی حاصل ہوئی تھی۔
روسی کمیونسٹ اپنے انقلابی رہنما لینن کی تصویر کے ساتھ ایک ریلی میں شریک ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa
سوشلسٹ ریاست کی جگہ وفاقی روس نے جنم لیا اور تقریباً گزشتہ چھبیس برسوں میں ماسکو حکومت اپنے سوشلسٹ ماضی کے ساتھ کوئی قرابت داری کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔ بندرگاہی شہر سینٹ پیٹرزبرگ کا نام سن 1924 میں لینن گراڈ کر دیا گیا تھا اور سن 1991 میں اسے موقوف کر کے سابقہ پرانے نام کو بحال کر دیا گیا۔ اسی طرح کئی مقامات سے بالشویک انقلاب کے مقبول رہنماؤں کے مجسموں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اس انقلاب کے سو سال مکمل ہونے پر ماسکو حکومت نے سرکاری سطح پر کسی بڑی تقریب کا اعلان نہیں کیا ہے۔
بالشویک انقلاب کا ایک اہم کردار جوزف اسٹالنتصویر: picture-alliance/dpa
بالشویک انقلاب کے بعد مارچ سن 1917 میں تخت سے دستبردار ہونے والے بادشاہ نکولس دوم اور اُن بیوی بچوں سمیت کوہ یورال میں واقع شہر اکتارین برگ کے ایک بڑے گھر ایپاٹیف ہاؤس منتقل کر دیا گیا تھا۔ روسی زار کو اُن کے خاندان کے ہمراہ فروری کی عبوری حکومت نے پہلے ہی زیر حراست رکھا ہوا تھا۔ سارے شاہی خاندان کو وسط جولائی سن 1918 کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اب اسی ایپاٹیف ہاؤس پر شاہی خاندان کی یاد میں روسی آرتھوڈکس چرچ کی اجازت سے ایک بڑا گرجا گھر تعمیر کر دیا گیا ہے۔
ایک سو برس قبل روس میں جولین کیلنڈر کا استعمال کیا جاتا تھا اور اُس وقت کا پچیس اکتوبر جورجین تقویم کے مطابق نو نومبر بنتا ہے۔ روس میں بالشویک انقلاب کے حکومتی کیلنڈر کو بھی جولین سے جورجین میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
دنیا کا ایک معروف ترین انقلابی لیڈر ’چی گویرا‘
چی گویرا کو نو اکتوبر 1967ء کو گولیاں ماری گئی تھیں۔ آج اس واقعے کو پچاس برس ہوگئے ہیں۔ منفرد بالوں اور داڑھی والے چی گویرا کو دنیا کا معروف ترین گوریلا لیڈر قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/M. Javier
قاتل یا انقلابی؟
چی گویرا کو کچھ لوگ ایک نظریاتی قاتل کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف انہیں دنیا میں انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والا ایک انقلابی رہنما سمجھا جاتا ہے۔ ایرنسٹو گویرا عرف چی 14 جون 1928 کو ارجنٹائن کے شہر روزاریو میں پیدا ہوا تھے۔
تصویر: picture alliance/abaca/M. Javier
کاسترو سے ملاقات
سن 1955 میں گویرا اور فیڈل کاسترو کی ایک اہم ملاقات میکسیکو میں ہوئی۔ اُس وقت وہ مشترکہ طور پر کیوبا کے ڈکٹیٹر فُلجینسیئو باتیستا کے خلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سن 1958 میں گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے نتیجے میں یکم جنوری سن 1959 کو باتیستا کیوبا سے فرار ہو گیا۔
تصویر: picture-alliance/KEYSTONE/STR
کیوبا کی انقلابی حکومت اور گویرا
فیڈل کاسترو نے انقلاب کے بعد پہلے گویرا کو کیوبن مرکزی بینک کا سربراہ مقرر کیا اور پھر سن 1961 میں وزارت صنعت کا قلمدان بھی تفویض کر دیا۔ ان ذمہ داریوں کے دوران انہوں نے بنیادی تبدیلیوں کی وکالت شروع کر دی۔ اسی دوران کیوبا میں شمالی امریکی شہریوں کی جائیدادوں کو قومیانے کے عمل میں بھی گویرا کی رائے کو اہمیت دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ڈاکٹر گویرا
میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران گویرا نے کئی لاطینی ملکوں کا دورہ کیا۔ ان ملکوں میں پائی جانے والی غربت اور بدعنوانی نے گویرا کے اندر جنم لیتی انقلابی تبدیلیوں کو مزید استحکام دیا۔ وہ جذام کے مریضوں کے مرکز پر جز وقتی ڈاکٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کوکا کولا اور شطرنج
امریکا مخالف جذبات رکھنے کے ساتھ انقلابی لیڈر سرمایہ دارانہ نظام کی بعض نشانیوں کو پسند بھی کرتے تھے۔ سن 1961 میں اقتصادی و سماجی کانفرنس کے دوران انہیں کوکا کولا کی بوتل پیتے ہوئے دیکھا گیا۔ گویرا انقلابی ہونے کے علاوہ شطرنج کے ایک باکمال کھلاڑی بھی تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گویرا بند گلی میں
سن 1965 میں گویرا نے کیوبن رہنما فیڈل کاسترو سے علیحدگی اختیار کر لی۔ انہوں نے کیوبا کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ افریقی ملک کانگو میں گوریلا فوج کو تیار کرنا چاہتے تھے تا کہ نوآبادیاتی سامراجیت کے خلاف عملی جدوجہد شروع کی جا سکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں کانگو میں جبری طور پر روانہ کیا گیا تھا۔ وہ کانگو میں بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
گویرا تنہا رہ گئے
بولیویا میں بھی چی گویرا کو کانگو کی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔ یہاں پر بھی وہ کسانوں کو مزاحمتی تحریک میں شامل نہیں کر سکے اور اپنے جنگجوؤں کے ساتھ تنہا رہ گئے۔ یہ تصویر 1967ء کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
گرفتاری اور ہلاکت
آٹھ اکتوبر 1967ء کے دن لا ہیگوئرا کے قریب سے چی گویرا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے ایک دن بعد انہیں گولی مار دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہائی کمان نے انہیں گولی مارنے کے احکامات دیے تھے۔
تصویر: Getty Images
چی کی باقیات
والن گراندے کے ہسپتال کے اس دھوبے خانے میں پچاس برس قبل چی گویرا کی لاش رکھی گئی تھی۔ اس کے بعد لاش کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کمرے کی ایک دیوار پر تحریر ہے، ’’اگر یہ تمہیں زمین کے نیچے چھپا بھی دیں تو بھی ہم تمہیں ڈھونڈ لیں گے، یہ ہمیں نہیں روک سکتے‘‘۔ اس واقعے کے تیس سال بعد چی کی باقیات کیوبا کے حوالے کی گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Ismar
چی ایک علامت
2008ء میں چی کے اسی ویں سالگرہ کے موقع پر ان کے آبائی شہر میں ہزاروں افراد نے چی کا ایک مجسمہ نصب کرنے کے حق میں مظاہرہ کیا۔ چی کی سوانح حیات کے مصنف خورخے کاستانیئدا کے مطابق، ’’ چی گویرا ایک علامت ہیں۔‘‘