ترکی میں نیاصدارتی نظام پیر کے روز سے نافذالعمل ہو جائے گا، جس کے تحت صدر رجب طیب ایردوآن کو وہ اختیار حاصل ہو جائیں گے، جو ترکی میں آج تک کسی منتخب رہنما کو حاصل نہیں ہوئے۔
اشتہار
نو جولائی کو صدر رجب طیب ایردوآن نئی مدت صدارت کے لیے پارلیمان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی باقاعدہ طور پر پارلیمانی جمہوریت سے صدارتی نظامِ حکومت میں تبدیل ہو جائے گا۔
ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے تیرہ برس قبل مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کیا تھا، مگر اس وقت ترکی جمہوریت، آزادیء اظہار اور سماجی ہم آہنگی کا ایک نمونہ تھا، مگر ترکی اب اسلامی شدت پسندی، قوم پرستی اور آمرانہ طرز حکومت کی جانب بڑھ رہا ہے۔نیا صدارتی نظام: ایردوآن کے نئے وسیع تر اختیارات کون سے؟
ترکی میں پارلیمانی کنٹرول کے خاتمے کے بعد ایردوآن کے پاس ایک طرح سے مطلق العنان اختیارات آ نے کو ہیں، یعنی اب وہ حکومتی اختیارات کا ماخذ بن جائیں گے۔ اب انہیں ججوں کی تعینات تک کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ عدلیہ ان کے زیر اثر کام کرے گی۔
استنبول کی سبانجی یونیورسٹی کے پالیسی سینٹر سے وابستہ سینیئر اسکالر ایرسین کالائجیوآؤلو تاہم اس پیش رفت کے نتائج سے متعلق غیر یقینی کی صورت حال کا شکار ہیں، ’’اب تک یہ نیا نظام اور اس کے اثرات پر ہمارے ساتھ کی گئی بات چیت عمومی نوعیت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو عوام اور نہ ہی سیاسی ماہرین یہ سمجھ پائے ہیں کہ اس نئے نظام کی تفصیل کیا ہے اور اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔‘‘
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔
تصویر: Reuters/Presidential Palace/K. Ozer
6 تصاویر1 | 6
ایردوآن کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں متعدد دیگر ممالک میں بھی صدارتی نظام نافذ ہے، تاہم ترکی امریکا یا فرانس کی صدارتی جمہوریت سے خاصا مختلف ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں صدر کے پاس پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہے، جب کہ ایردوآن کے پاس پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ اسی طرح فرانس میں آئینی عدالت کے ججوں کی تقرری کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے، تاہم ایردوآن اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے فیصلے کے اختیارات کے حامل ہوں گے۔
اس کے علاوہ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا اور فرانس جیسے صدارتی طرز حکومت کے حامل ممالک میں ایک مضبوط سول سوسائٹی بھی موجود ہے، جو آمرانہ فیصلوں کے خلاف بھرپور احتجاج کی صلاحیت رکھتی ہے، تاہم ترکی میں ایسا نہیں۔