جمعے کی رات اس صدی کا طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن ہوا جبکہ گزشتہ رات پندرہ برسوں میں مریخ بھی زمین کے قریب ترین تھا۔ دنیا بھر کے لوگوں نے ان دونوں قدرتی مظاہرہ کا شاندار نظارہ کیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اکیسویں صدی کے طویل ترین ’بلڈ مون‘ چاند گرہن کا دورانیہ ایک گھنٹے اور 43 منٹ تھا۔ یورپ، مشرق وسطیٰ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا اور جنوبی امریکا کے زیادہ تر علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس چاند گرہن کا نظارہ کیا۔
تہرا کائناتی مظہر ،سپر بلڈ بلو مون
01:14
اس چاند گرہن کا مجموعی وقت تقریبا چار گھنٹے طویل تھا تاہم مکمل چاند گرہن عالمی وقت کے مطابق ساڑھے سات تک سوا نو بجے تک رہا۔ سورج گرہن کے برعکس چاند گرہن کو دیکھنے کی خاطر کسی خصوصی چشمے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
چاند گرہن کے وقت زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے کیونکہ زمین سورج اور چاند کے عین درمیان آ کر چاند تک پہنچنے والی سورج کی روشنی میں حائل ہو جاتی ہے، اس لیے چاند کی بیرونی دائروی سطح اس موقع پر نارنجی یا سرخ رنگ کا دکھائی دیتے لگتی ہے۔
جب یہ چاند گرہن ہوا تو سیارہ مریخ بھی انتہائی روشن تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ فاصلے کے اعتبار سے مریخ زمین کے انتہائی قریب آ چکا تھا اور لوگوں نے اس سرخ سیارے کو بغیر دوربین کے بھی دیکھا۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ آئندہ چند روز تک مریخ زمین کے انتہائی قریب رہے گا، جس کا زمین سے فاصلہ 57.7 ملین کلو میٹر ہو گا۔ مطلع ابر آلود نہ ہونے کے نتیجے میں اس کا مشاہدہ ننگی آنکھوں سے کیا جا سکتا ہے۔
اس چاند گرہن سے قبل سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ جب زمین سورج اور چاند کے بالکل درمیان میں ہو گی تو مریخ چاند جتنا بڑا دیکھائی دے گا۔ تاہم اس قدرتی مظہر کے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی امریکی خلائی ادارے ناسا نے ان افواہوں کو مسترد کر دیا تھا۔
ع ب / ع ح / خبر ر ساں ادارے
جب چاند سرخ ہو گیا
ستائیس اور اٹھائیس ستمبر کی درمیانی شب سپر مون تھا، یعنی چاند زمین سے فاصلے کے اعتبار سے انتہائی کم ترین مقام پر تھا اور اسے گرہن کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: Getty Images/David McNew
دوہرا موقع
چاند حجم کے اعتبار سے اپنی بلند ترین سطح پر تھا جب کہ براعظم شمالی و جنوبی امریکا، یورپ، افریقہ اور مغربی ایشیا کے قریب تمام ممالک میں ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کے اس چاند گرہن کو دیکھا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Vennenbernd
قدرت کی تکونیات
سن 1982ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب چاند زمین اور سورج ایک قطار میں اس انداز سے تھے کہ چاند اپنے حجم کے اعتبار سے خاصا بڑا تھا۔ اب دوبارہ یہ منظر سن 2033 سے پہلے دکھائی نہیں دے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
جرمنی اور یورپ میں مکمل چاند گرہن
یہ چاند گرہن اس لحاظ سے بھی اچھوتا تھا کہ مطلع صاف ہونے کی وجہ سے یورپ میں متعدد ممالک کے شہریوں نے کھلی آنکھوں سے اس مظہر قدرت کا نظارہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Frey
’سپر مون‘ کو سایے نے آ لیا
یورپ میں بعد از نصف شب زمین کا سایہ ’سپرمون‘ پر پڑنا شروع ہوا اور دھیرے دھیرے یہ پورا چاند رنگت تبدیل کرتے ہوئے، سرخ رنگ میں ڈوب گیا۔ زمین سے منعکس ہونے والی سورج کی روشنی چاند کو خون جیسے رنگ میں تبدیل کر گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بڑے چاند کی بڑی تفصیل
چاند کا حجم بڑا ہونے اور مناسب روشنی کی وجہ سے انسانی آنکھ چاند کی سطح کی وہ تفصیلات بھی دیکھ پائی جو عام حالات میں دوربین کا تقاضا کرتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/Phil Walter
شمالی امریکا میں بھی ’سپرمون‘ کا نظارہ
’سپرمون‘ براعظم شمالی امریکا میں بھی مرکز نگاہ رہا۔ امریکا میں 23 ستمبر کا سورج ڈوبنے کے بعد ’سپرمون‘ سب کی نگاہوں کے سامنے تھا۔