اکیلا پن اور اس کا حل: بڑھاپے میں انسان کیا کچھ نہیں کر جاتا
22 اپریل 2021
اٹلی میں ایک انتہائی بزرگ خاتون نے احساس تنہائی سے تنگ آ کر ایک ایسا کام کیا، جو قانوناﹰ قابل سزا جرم تھا۔ پولیس نے اس چورانوے سالہ خاتون پینشنر کے خلاف یہ کہتے ہوئے کوئی مقدمہ درج نا کیا کہ یہ جرم ایک ’بے ضرر جھوٹ‘ تھا۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے جمعرات بائیس اپریل کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق شمالی اٹلی میں یہ واقعہ لومبارڈی کے علاقے میں لَیچو کے صوبے میں پیش آیا۔ صوبائی پولیس نے اپنی ویب سائٹ اور اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بتایا کہ انتہائی حد تک احساس تنہائی کی شکار ایک 94 سالہ خاتون پینشنر نے پولیس کو فون کیا اور کہا کہ اس کے گھر میں چوری ہو گئی ہے۔
مقصد صرف یہ تھا کہ پولیس اس جرم کی اطلاع ملنے پر اس خاتون کے گھر آئے تو اس بہت عمر رسیدہ خاتون کو کم از کم کسی سے بات کرنے کا موقع تو ملے۔ پھر ہوا بھی وہی، جو اس خاتون نے سوچا تھا۔
پولیس اس بزرگ شہری کے گھر پہنچی تو یہ خاتون اس بارے میں کوئی تسلی بخش جواب نا دے سکی کہ اس کے ہاں چوری کب ہوئی اور چور اپنے ساتھ کیا کچھ لے گئے۔
کورونا وائرس کی وبا کے سبب لگی پابندیوں اورلاک ڈاؤن نے گزشتہ ایک سال سے زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔ دماغ کو سکون پہنچانے اور ذہنی دباؤ دور کرنے کے لیے چند تجاویز۔
تصویر: Federico Gambarini/dpa/picture-alliance
چہل قدمی کیجیے
قدرتی مناظر میں گھرے ہوئے مقامات ہوں یا گہرے جنگل، جھیل، ندی یا سمندر کا کنارہ ہو یا پہاڑی راستے، ایسی جگہوں پر تیز رفتار چہل قدمی یا ٹہلنا انتہائی راحت بخش اور صحت مند ہوتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق جرمن باشندے عام دنوں سے کہیں زیادہ کورونا کی وبا میں یہ کرتے دکھائی دیے۔
تصویر: Federico Gambarini/dpa/picture-alliance
آپ کے ڈرائنگ روم کی دنیا
سیاحت پر لگی پابندی نے انسانوں کو بہت بے صبر بنا دیا ہے۔ جیسے ہی سفر کرنا دوبارہ ممکن ہوا، لوگ اپنے اپنے بیگ اٹھائے ہوائی یا بحری جہازوں کا رخ کریں گے۔ کووڈ انیس کی وبا میں گھر میں بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر ورچوئل طریقے سے بھی ممکن ہے۔ مفت اور محفوظ۔ بہت سی ویب سائٹس مختلف شہروں اور عجائب گھروں کے ورچوئل دورے کراتی ہیں۔ اس طرح آپ اپنے اگلے حقیقی سفر کا منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں۔
تصویر: Colourbox/L. Dolgachov
متحرک رہیں
اپنی سائیکل پکڑیں اور کسی پارک میں بنے سائیکل ٹریک پر سائیکلنگ کیجیے یا پتلی پگڈنڈیوں پر۔ اگر یہ ممکن نا ہو تو اپنے ڈرائنگ روم میں یوگا میٹ بچھا کر یوگا کیجیے۔ بہت سے فٹنس ٹیچرز نے آن لائن تربیتی پروگرام اپ لوڈ کیے ہیں۔ اسمارٹ فون پر ایپس بھی موجود ہیں۔ مفت ورزش کی کلاسوں میں حصہ لیجیے۔ اس طرح کورونا وائرس کی وبا کی پھیلائی اداسی دور کرنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
کسی خیالی دنیا کی سیر
کسی حیرت انگیز ایڈونچر کے دوران خود کو ایک جنگی شہسوار یا ’نائٹ‘ تصور کریں۔ ویڈیو گیمز لاک ڈاؤن کی بوریت اور مایوس کن صورتحال سے آپ کو نکالنے میں بہت مدد دیتی ہیں۔ ان گیمز کے ذریعے آپ ایک نئی دنیا تشکیل کر سکتے ہیں جس میں آپ کی ملاقات انتہائی دلچسپ کرداروں سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ پر ویڈیو گیمز کھیلنے والے دیگر شائقین سے بھی آپ کا رابطہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Square Enix
کتابی کیڑا ہی بن جائیں
کتابوں کے ڈھیر آپ کے منتظر ہیں۔ آج کل عام دنوں سے کہیں زیادہ وقت کتابوں کو پڑھنے میں صرف کیا جا سکتا ہے یا کسی پوڈکاسٹ کو سننا بھی بوریت دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ ایسے ہی جیسے مختلف پزل گیمز۔ لاک ڈاؤن میں کام کے اوقات کم ہو گئے ہیں۔ دفتر آنے جانے میں صرف ہونے والا وقت بھی آپ گھر پر کتابیں پڑھتے یا آڈیو بکس سنتے ہوئے گزار سکتے ہیں۔
اپنی الماریوں اور کتابوں کی شیلفوں پر نظر ڈالیے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ نے کتنے لباس الماریوں میں بے ترتیب بھرے ہوئے ہیں اور الماریوں کے خانوں میں کتنی غیر ضروری اشیاء بھری پڑی ہیں۔ جا بجا کتابوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے اوقات کا فائدہ اُٹھائیے۔ چیزوں کو ترتیب دینا، گھر کو سلیقے سے سجانا یہ سب بہت راحت بخش ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Netflix/D. Crew
کھانے پکانا
بازاری کھانوں کو وقفہ دیں۔ کھانا پکانے کی کلاسیں آن لائن بھی ہوتی ہیں، جن میں انفرادی یا اجتماعی دونوں طریقوں سے حصہ لیا جا سکتا ہے۔ نئی نئی تراکیب کا استعمال اپنی ذات میں، دوستوں یا پھر اہل خانہ کے ساتھ ذہنی دباؤ اور پریشیانیوں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مزے مزے کے نئے پکوان جب تیار ہو کر میز پر آئیں تو لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/MK-Photo
باغبانی ایک بہترین مشغلہ
آپ باغبانی اور شجر کاری کے ماہر ہوں یا نا ہوں، مٹی کھودنا، پودے لگانا، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کی نگہداشت کرنا اور سبزیاں اگانا، آپ اپنے لان یا بالکونی میں بھی یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی فائدہ مند مشغلہ ہے جو ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کچھ وقت مراقبے کے لیے بھی
اگر آپ کو کسی صورت ذہنی سکون نہیں ملتا، تو مراقبہ اس کا بہترین علاج ہے۔ انٹرنیٹ پر لا تعداد ویڈیوز موجود ہیں، جن کی مدد سے آپ مراقبے یا ذہنی ارتکاز فکر کے ابتدائی اسباق سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ بہت سی اسمارٹ فون ایپس بھی آپ کو اس عمل کی مشق کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
تصویر: ASA/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
پولیس اہلکاروں نے سچ بھانپ لیا تھا
لَیچو پولیس کے مطابق، ''فون کال کے بعد اس خاتون کے گھر پہنچنے والے پولیس افسران کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ خاتون بہت اداس اور احساس تنہائی کا شکار تھی، جو صرف یہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کے پاس بیٹھ کر کچھ دیر اس کے ساتھ گفتگو کر لے۔‘‘
اس خاتون نے پولیس کو بتایا کہ اس کا کوئی قریبی رشتے دار زندہ نہیں تھا اور وہ یہ سوچ کر بہت پریشان تھی کہ اسے اگلے ہفتے اپنی ذاتی رہائش گاہ سے مستقل طور پر ایک اولڈ ہوم میں منتقل ہونا تھا۔
اس پر پولیس اہلکاروں نے اس خاتون سے کچھ دیر تک بات چیت کی، اسے تسلی دی اور وہاں سے رخصت ہو گئے۔
اگلے روز پولیس کیک لے کر آ گئی
اس خاتون کی شناخت ظاہر کیے بغیر پولیس نے بتایا کہ جس دن یہ واقعہ پیش آیا، اس سے اگلے ہی روز وہی پولیس افسران دوبارہ اس خاتون کے گھر چلے گئے۔
نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران روسی نژاد جرمن پیانو نواز آئیگور لیوٹ آج کل ہر شام ٹویٹر پر لائیو کانسرٹ نشر کرتے ہیں۔ ان کی یہ کاوش ان کے مداحوں میں خاصی مقبول بھی ہو رہی ہے۔ اپنے وقت کو کارآمد بنانے اور اپنے مداحوں سے رابطے میں رہنے کا یہ لیوٹ کا انوکھا انداز ہے۔
تصویر: Igor Levit
ادب کا ایک نیا باب
کبھی پرندوں کے چہچہانے کی آواز، کبھی صبح کی نم ہوا تو کبھی کسی درخت کے تنے پر نشانات، معروف فرانسیسی مصنفہ لیلی سلیمانی اپنی قرنطینہ ڈائری میں وہ سب لکھ ڈالتی ہیں جو ان کی نگاہ سے گزرتا ہے۔ ان کی یہ ڈائری فرانسیسی اخبار ’لی موندے‘ میں شائع ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Images/T. Camus
کام کیسے کیا؟ یہ بھی ایک آرٹ
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا سے قبل انتیس سالہ الیگزینڈر اسکین نے خود کو برلن کی سیکساؤر گیلری میں پچاس دنوں کے لیے قید کر لیا تھا۔ اس دوران وہ ایک پینٹنگ پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے پچاس دنوں تک ہر روز آٹھ گھنٹے تک اپنی سرگرمیوں کو ریکارڈ کیا، جن میں حتی کہ وہ کھاتے اور سوتے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہ پینٹنگ اب عالمی وبا کے بعد ہی فروخت ہو سکے گی۔
تصویر: Galerie Sexauer
نظر بندی کا ایک سال
روسی تھیٹر ڈائریکٹر کیریل سیریبرینیکوو خود ساختہ طور پر اٹھارہ ماہ کے لیے نظر بند رہے تاہم وہ اس دوران بہت کچھ کرتے رہے۔ اب وہ ایک ویڈیو میں لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ بندش میں وقت کو کیسے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ سیریبرینیکوو کی نظر بندی ایک سال قبل ختم ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Vyatkin
بھارت میں مراقبہ
سربین فنکارہ مارینہ ابرامووچ ہر سال کے اختتام پر بھارت چلی جاتی ہیں۔ وہ یہ وقت تنہائی میں مراقبہ کر کے گزارتی ہیں۔ مارینہ کے بقول یہ جسم اور روح کو تروتازہ رکھنے کے لیے لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Invision/V. Le Caer
حراست میں بھی ہمت نہ ہاری
چینی فنکار آئی وائی وائی کو سن 2009 میں گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اتنا تشدد کہ وہ ’سیریبرل ہیمرج‘کا شکار ہو گئے تھے۔ آئی وائی وائی نے اس وقت بھی اپنا کام جاری رکھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Sommer
آٹھ سال کے لیے نظر بند
شاعر، پینٹر اور فوٹو گرافر لو شیاباؤ کو چینی حکومت نے آٹھ سال کے لیے نظر بند رکھا۔ مگر اس نوبل انعام یافتہ فنکار نے ہمت نہ ہاری اور تخلیق جاری رکھی۔ بعد ازاں ان کے کئی فن پاروں کی نمائش برلن میں بھی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/V. Essler
دور جدید کا روسی ادب، تنہائی میں تخلیق ہوا
دور جدید کے روسی ادب کے تخلیق کار شاعر الیگزینڈر پشکن سن 1830 میں چند ماہ کے لیے خود ساختہ نظر بندی میں چلے گئے تھے۔ ان کے اس اقدام کا مقصد ہیضے کی وبا سے بچنا تھا۔ اسی دور میں پشکن نے کئی کہانیاں، اشعار اور ناول لکھے۔
اس مرتبہ ان کی آمد کا مقصد یہ دریافت کرنا تھا کہ آیا وہ خاتون ٹھیک ٹھاک اور خوش باش تھی۔ دوسری بار جاتے ہوئے یہ اہلکار اس خاتون کے لیے تحفے کے طور پر ایک کیک بھی ساتھ لے گئے تھے۔
'بے ضرر جھوٹ‘
صوبائی پولیس نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ یہ خاتون اپنے گھر چوری کی واردات کا غلط دعویٰ کرتے ہوئے قانوناﹰ ایک قابل سزا جرم کی مرتکب ہوئی تھی۔ لیکن اس بزرگ خاتون کے خلاف کوئی مقدمہ درج نا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس لیے کہ اس خاتون کی طرف سے ایک 'مجرمانہ واردات کا جھوٹا دعویٰ‘ تنہائی کے مارے ایک اداس اور بہت بزرگ انسان کا ایک 'بےضرر جھوٹ‘ ہی تو تھا۔
م م / ع ب (اے ایف پی)
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔