اک شہر فن کو حکمران کی ضد اڑا کر لے گئی
1 جون 2021ان کا وجود میرے لیے بھی ایک نعمت تھا۔ یہ تینوں عمارتیں دہلی کے وقار میں اضافہ کرتی تھیں اور ان ہی کی وجہ سے میں بھی بطور دہلی کے مکین ہونے کے ناطے فخر محسوس کرتی تھی۔ نیشنل آرکائیوز میں تو پورے جنوبی ایشیاء کی تاریخ سمٹی ہوئی ہے۔ خلیجی، تغلق، پٹھان، مغل اور برطانوی دور حکومت کی تمام تر دستاویزات اور فرامین یہاں محفوظ ہیں اور محقیقین کی راہ دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر اس وقت جب دہلی میں کورونا وائرس کی وباء نے پوری آبادی کو ہراساں کیا ہوا ہے اور اموات کی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، بلکل اسی طرح وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے نیا دارالحکومت اور نئے سرکاری دفاتر و رہائش گاہیں بنانے کی ضد نے اس شہر کی روح کو زخمی کر کے رکھ دیا ہے۔
دہلی کا وسطی علاقہ، یعنی پارلیمنٹ ہاؤس سے انڈیا گیٹ تک اس وقت جیسے کوئی جنگ زدہ علاقہ لگتا ہے۔ ہر طرف کھدائی اور بڑے بڑے کھڈے۔ نیا شہر بسانے کے نام پر اندرا گاندھی نیشنل سینٹر آرٹ، نیشنل آرکائیوز اور نیشنل میوزیم سمیت کئی عمارات ڈھائی جا رہی ہیں۔ دہلی کی ثقافت و تہذیب ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو کر ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح ملیا میٹ ہو رہی ہے، جو شاید نادر شاہ یا تیمور لنگ کے حملوں کے وقت بھی نہ ہوئی ہو۔
بھارت کے افسر شاہی نظام میں، ایک اسکول یا ہسپتال بنانے کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے میں ماہ و سال لگ جاتے ہیں۔ مگر تین کلومیٹر پر محیط اور 200 بلین روپے کی لاگت والے اس پروجیکٹ کو بس چند روز میں ہی پاس کیا گیا۔ ایسے وقت میں، جب طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے لوگ وباء سے ہلاک ہو رہے ہیں، حکومت کی نیا دارالحکومت بنانے کی ترجیح سے عوام بے حال ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران بھی اس منصوبہ پر کام زور و شور سے جاری ہے۔ اس سائٹ پر روزانہ 300 سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں اور ان کو لاک ڈاون سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
اس آرٹ سینٹر کے ساتھ کئی میری یادیں وابستہ ہیں۔کھبی اس کے وسیع و عریض احاطے میں ریختہ فاؤنڈیشن کی طرف سے جشن اُردو برپا ہوتا تھا تو کبھی دور دراز کے صوبوں یا علاقوں کے رقص و موسیقی کے پروگرام، کبھی مشاعرہ تو کبھی کوئی سمیلین۔ غرض آرٹ اور کلچر کے دیوانوں کے لیے یہ کسی آستانے سے کم نہیں تھا۔ اس سینٹر نے مجھے بھارت کے مسحورکن ثقافتی تنوع کو سمجھنے اور اس کی قدردانی سکھائی، جو فی الوقت اضطراب کا شکار ہے۔
فنون لطیفہ کے دیوانوں کے لیے اس احاطے میں وقت جیسے تھم جاتا تھا۔ اس کی لائبریری میں تقریباً تین لاکھ سے زیادہ کتب موجود تھیں۔ سامنے نمائش گاہ،جہاں ہر وقت ملک کے کسی نہ کسی گوشے کے کسی مصور کے شہ پاروں کی نمائش لگی ہوتی تھی۔ اس کے متصل آڈیٹوریم، جہاں آرٹ و کلچر سے وابستہ کسی شخصیت کے لیکچر سے آپ لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ اس کی ریفرنس لائبریری میں آچاریہ ڈاکٹر ہزارہ پرساد دویدی اور کرشنا کرپلانی جیسے ممتاز شہریوں کا ذاتی ذخیرہ موجود تھا۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کی بے حسی اور ضد کی وجہ سے یہ جگہ اب تاریخ بن رہی ہے اور اس کے ذخیروں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ تاریخ دان جبکہ آرٹ اور کلچر سے محبت کرنے والے اس اہم جگہ کے ضائع ہونے پر ہلکان ہیں۔
تقسیم سے قبل کے پنجاب اور سکھ ازم کے موضوع پر جب میں تحقیق کر رہی تھی تو مجھے اکثر نیشنل آرکائیوز جانا پڑتا تھا۔ یہ پورے جنوبی ایشیاء کی تاریخ کے علاوہ نایاب اور انمول میراث کو سمیٹے ہوئے ہے۔ سن 1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت نئی مملکتوں بھارت اور پاکستان کی افسر شاہی نے دفتری فرنیچر، خزانہ، فوج اور دیگر سازو سامان کو آپس میں بانٹ تو لیا مگر کتب اور آرکائیوز کا بٹوارہ نہیں ہوا۔ اسی لیے آرکائیوز سے متعلق سبھی دستاویزات بھارت میں ہی رہیں۔
ماضی کے خزانے
مثال کے طور مغلیہ دور پر تحقیق کرنے والے کسی بھی محقق کو اگر شہنشاہ اکبر یا کسی دیگر فرمانروا کے کسی تحریری فرمان کا مطالعہ کرنا ہو تو وہ اسی بلڈنگ میں موجود ہے۔ برطانوی دور کے جاسوسوں کی رپورٹیں، اس بلڈنگ کے خزانے میں موجود ہیں۔ نیشنل آرکائیوز کے دہلی میں موجود ہونے اور اس کو سن 1947 کے بٹوارہ کی مار سے بچانے کی وجہ سے بھارت میں ہمیشہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نسبت بہتر مورخ پیدا ہوئے ہیں۔ چند برس قبل پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں موجود قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے مجھے بتایا کہ بھارتی حکومت، پاکستانی یا بنگلہ دیش کے محققین یا مورخین کو اس آرکائیوز سے مستفید ہونے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ پہلے تو مجھے لگا کہ پروفیسر صاحب کسی پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ان ممالک کے محقیقین کو اس مشترکہ وراثت سے دور رکھا جائے۔ مگر دہلی واپس آ کر معلوم ہوا کہ یہ بلکل سچ ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے محقیقن اپنی تاریخ کے ماخذ اور اصل اور بنیادی دستاویزات کے مطالعہ اور ان پر اپنی رائے قائم کرنے کے حق سے پچھلے 75سالوں سے محروم ہیں۔
زیادہ حیرت تو اس پر ہوئی کہ ابھی تک کسی نے اس پر آواز بھی نہیں اٹھائی ہے اور بنگلہ دیش یا پاکستان کے وزرائے اعظم یا دیگر حکمرانوں یا افسران نے اس کو کبھی بھارت کے ساتھ گفت و شنید کا بھی موضوع نہیں بنایا ہے۔ صرف ایک بار پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز کے دہلی کے نمائندے نے بھارت اور پاکستان کے افسران کی ایک میٹنگ کے حوالے سے اس ایشو کو اٹھایا تھا لیکن بعد میں کسی نے بھی اس کو فالو نہیں کیا۔
اسی طرح کا خزانہ نیشنل میوزیم میں بھی موجود ہے۔ چند برس قبل یہاں 'کوڑی سے کریڈٹ کارڈ تک‘ پر ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دریائے سندھ کی تہذیب سے لے کر اب تک کی کرنسی کا سفر اس نمائش میں دکھایا گیا تھا۔ یہ تصور کرنا ہی مشکل تھا کہ ایک ہی چھت کے نیچے کرنسی کی تاریخ کا اس قدر نایاب خزانہ موجود ہو سکتا ہے۔ تب ایک افسر نے مجھے بتایا کہ یہ تو صرف ان کے پاس موجود خزانہ کا صرف 20 فیصد ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عجائب گھر یا آرکائیو کی منتقلی خاصا پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لئے برسوں کی محنت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قیمتی وراثت کو صندوقوں میں بھر کر اندھیری کوٹھریوں میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ انہیں انتہائی احتیاط کے ساتھ سنبھالنا پڑتا ہے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ ہو۔ مزید یہ کہ منتقلی سے قبل نئی سائٹ بھی تیار ہونی چاہیے۔ ان تین عمارتوں کے علاوہ آٹھ دیگر عمارات، جن میں سے زیادہ تر آزادی کے بعد تیار کی گئی تھیں، کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے تاکہ وزیر اعظم مودی کے لئے محل اور نئے سرکاری دفاتر تعمیر کرائے جائیں۔
بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی دہلی کی رہائش گاہ کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔ دیگر عمارات، جو گرائی جا رہی ہیں، اتفاقاً کسی نہ کسی صورت میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور نہرو کے لیے مودی کی ناپسندیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ نہرو کے ساتھ یہ نفرت کس قدر شدید ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ کا صدر دفتر، جو نہرو بھون کے نام سے جانا جاتا ہے اور بس دس سال قبل ہی تعمیر ہوا اور جدید فن تعمیر کا ایک شاہکار مانا جاتا ہے، اس کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے؟
کہتے ہیں کہ آمروں کو آرٹ اور کلچر راس نہیں آتا کیونکہ ان کے ذریعے کسی نہ کسی صورت میں اظہار رائے اور موجودہ حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی بھی حکمران نے دہلی کی از سر نو تعمیر کی ہے، اس کو اس میں بعد میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ قبل از تاریخ اس شہر کو اندر پرستھ کے نام سے پانڈوں کے سردار یڈھشٹر نے بسایا۔ یہ شہر آج کے چڑیا گھر اور شیر شاہ سوری کے بنائے گئے پرانے قلعہ کے پاس ہے۔ مگر پانڈوں کو اس شہر میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ نہ صرف وہ ملک بدر ہو گئے بلکہ انہوں نے جوئے میں اپنی مشترکہ بیوی دروپدی کو بھی کھو دیا۔
یہی کچھ واقعات بعد میں پرتھوی راج چوہان، علاؤ الدین خلیجی، فیروز شاہ تغلق، شیر شاہ سوری، شاہجہان اور بعد میں برطانوی حکمرانوں کے ساتھ پیش آئے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں آٹھ بار جن حکمرانوں نے دہلی کو ازسرنو تعمیر کرایا، انہوں نے پرانا شہر مسمار نہیں کیا۔ دہلی یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر سری رام اوبرائے نے مجھے بتایا کہ دہلی میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ کہتے ہیں کہ جو قومیں اپنی تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں، وہ نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔