اگر اليکشن ميں فراڈ ہوا تو تفتيش کرائيں، امريکی اٹارنی جنرل
10 نومبر 2020
امريکی اٹارنی جنرل نے رياستوں کو احکامات جاری کيے ہيں کہ انتخابات ميں مبينہ دھاندلی اور بے ضابطگيوں کی ری پبلکن پارٹی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سامنے لائی گئی شکايات سے آٹھ دسمبر تک نمٹا جائے۔
اشتہار
امريکا کے اٹارنی جنرل وليم بار نے وفاقی استغاثہ کے اہلکاروں کو صدارتی اليکشن کے دوران مبينہ دھاندلی اور بے ضابطگيوں کی تفتيش کی اجازت دے دی ہے۔ بار نے پير نو نومبر کے روز اس سلسلے ميں مختلف رياستوں کے اٹارنی جنرلز کو خطوط ارسال کرتے وقت بتايا کہ فی الحال دھاندلی کے کوئی ثبوت سامنے نہيں آئے۔ بار نے واضح کيا کہ اگر دھاندلی اور بے ضابطگياں ہوئيں، تو ان کی تفتيش کی جائے اور اس کے بعد ہی صدارتی اليکشن کے نتائج کی توثيق کی جائے گی۔
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پنسلوينيا، نيواڈا، جارجيا اور ايريزونا ميں معمولی فرق سے ہارے جس کے بعد وہ فراڈ کے الزامات لگا رہے ہيں۔ ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ نے اليکشن ميں شکست کو تسليم نہيں کيا۔ ٹرمپ کا الزام ہے کہ ڈيموکريٹس نے ان کے خلاف وسيع پيمانے پر سازش کی اور نتائج بائيڈن کے حق ميں کیے گئے، گو کہ ابھی تک انہوں نے اپنے دعووں کی تائيد کے ليے کوئی شواہد پيش نہيں کيے۔ زمينی صورتحال يہ ہے کہ چند اہم رياستوں ميں بائيڈن کو ٹرمپ پر برتری حاصل ہے اور ان تمام رياستوں سے آزادانہ طور پر دھاندلی اور بے ضابطگيوں کی کوئی رپورٹ نہيں آئی۔ حتٰی کہ ری پبلکن اور ڈيموکريٹک دونوں پارٹيوں سے وابستہ متعدد سياستدان يہ بھی کہہ چکے ہيں کہ انتخابی عمل بغير مسائل کے ہوا۔ چند ايک مقامات پر ووٹنگ مشينيں وغيرہ خراب ہونے کے واقعات ضرور پيش آئے جو حکام کے مطابق اتنے بڑے ملک ميں معمول کی بات ہے اور ان کے نتائج پر کوئی خاطر خواہ نتائج نہيں آ سکتے۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
دريں اثناء امريکی ذرائع ابلاغ ميں يہ خبريں بھی گردش کر رہی ہيں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قريبی ساتھی وليم بار کی جانب سے اس اجازت کے بعد محکمہ انصاف کے اليکشن کے دوران اس طرز کے جرائم کی تفتيش کرنے والے ذيلی محکمے کے سربراہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہيں۔ رچرڈ پلگر نے پير کی شب اس بارے ميں اعلان کرتے وقت کہا کہ بار کا فیصلہ ان کے استعفے کی وجہ بنا۔ وہ محکمہ انصاف ميں بطور اٹارنی اب بھی کام جاری رکھيں گے مگر انہوں نے انتخابی بے ضابطگيوں کی شکايات سے نمٹنے والے محکمے سے عليحدگی اختيار کر لی ہے۔
حاليہ پيش رفت کے بعد اب رياستوں کو آٹھ دسمبر تک کا وقت ديا گيا ہے کہ وہ 'تمام جائز شکايات‘، ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستوں وغيرہ سے نمٹيں۔ پھر چودہ دسمبر کو اليکٹورل کالج کے ارکان کی ملاقات طے ہے، جس ميں حتمی نتائج پر اتفاق ہونا ہے۔