’اگر بائیڈن کی جیت ہوئی، تو آفس چھوڑ دوں گا،‘ ٹرمپ
27 نومبر 2020
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر الیکٹورل کالج ووٹ جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کرتے ہیں، تو ان کی یہ بڑی غلطی ہو گی۔ بائیڈن کو مزید الیکٹورل کالج ووٹ ملنے کا امکان ہے اس کے باوجود ٹرمپ اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات چھبيس نومبر کو کہا کہ اگر الیکٹورل کالج سے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی فتح کی باقاعدہ تصدیق ہو جاتی ہے، تو وہ وائٹ ہاؤس چھوڑ دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا، ''یقيناً میں چھوڑ دوں گا اور آپ کو یہ معلوم ہے۔‘‘ تاہم ٹرمپ نے زور دیا کہ اس وقت تک بہت تبدیلیاں ہوں گی جس سے نتائج بدل بھی سکتے ہیں۔
امريکی صدر کا کہنا تھا، ''یہ ایک طویل راستہ ہے۔‘‘ امریکا کے صدارتی اليکشن میں ہارنے والا امیدوار روایتی طور پر شکست تسلیم کرنے کے لیے باضابطہ خطاب کرتا ہے جو صدر ٹرمپ نے ابھی تک نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کئی عدالتوں میں مقدے دائر کر دیے ہیں۔ صدر ٹرمپ کئی ریاستوں میں پہلے ہی عدالتی لڑائی ہار چکے ہیں جبکہ امریکا کے ریاستی حکام اور عالمی مبصرین نے ایسے الزامات کے حق میں کوئی بھی ثبوت نہ ہونے کی بات کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے جب یہ بات کہی کی وہ وائٹ ہاؤس چھوڑ دیں گے تو انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ شاید وہ باضابطہ طور پر کبھی بھی اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا، ''شکت تسلیم کرنا بڑی مشکل چیز ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ بس وقت ہمارے ساتھ نہیں۔ اگر الیکٹورل کالج ووٹ میرے خلاف ہوا، تو یہ ان کی غلطی ہو گی۔‘‘
صدر ٹرمپ نے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ 20 جنوری کو جو بائیڈن کی حلف برداری تقریب میں شریک ہوں گے یا نہیں۔ انہوں کہا کہ انہیں جواب تو معلوم ہے مگر وہ دینا نہیں چاہتے۔ عام روایت یہ ہے کہ موجودہ صدر کیپيٹل ہل کی عمارت میں حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے جانے سے پہلے ہی نو منتخب صدر کا وائٹ ہاؤس میں خیر مقدم کرتا ہے اور پھر تقریب کے لیے جاتا ہے۔
امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟
05:03
امکان ہے کہ 14 دسمبر کو جب انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان ہوگا تو اس میں جو بائیڈن کو 306 الیکٹورل کالج مل سکتے ہيں جبکہ ٹرمپ کو 232 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ کامیابی کے لیے 270 الیکٹورل کالج ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکی کانگریس جنوری میں ان ووٹوں کی تصدیق کرتی ہے۔
اشتہار
تھینکس گیونگ کا بدلا ہوا منظر
امریکا میں جمعرات 26 نومبر کو تھینکس گیونگ یعنی یوم تشکر تھا۔ صدر ٹرمپ اور نو منتخب صدر جو بائیڈن نے جس جوش و احتشام کی روایت کے ساتھ یہ تہوار منایا جاتا ہے اس طرح نہیں منایا۔ عام طور بائیڈن کا خاندان اس موقع پر بڑے اجتماعات کرتا ہے تاہم اس بار بائیڈن نے یہ وقت اپنی اہلیہ جل کے ساتھ ریاست ڈیلاویئر میں چھٹی کے طور پر گزارا۔
بائیڈن نے اس موقع پر کہا، ''میں جانتا ہوں، ہم میں بہت سے لوگوں کو توقع نہیں تھی کہ وہ اپنی چھٹی اس طرح گزاریں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ گھر میں رہنے کا ہمارا چھوٹا سا یہ عمل ہمارے دوسرے امریکی ساتھیوں کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہتر دن ضرور آئیں گے۔‘‘
ٹرمپ نے یہ دن فلوریڈا کے مارے لاگو ریزارٹ میں گزارا۔ لیکن دن کا کچھ حصہ انہوں نے ورجینا میں اپنے گولف کلب میں گولف کھیل کر بھی گزارا۔ گزشتہ برس انہوں نے اس موقع پر اچانک افغانستان کا دورہ کیا تھا اور یہ دن امریکی فوجیوں کے ساتھ گزارا تھا۔
ص ز/ ع س (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔