اگر دیوار برلن نہ گرتی تو ۔۔۔ انگیلا میرکل کا خواب کیا تھا؟
8 نومبر 2019
منقسم جرمنی کی سرحد پر تعمیر کردہ دیوار برلن اگر تیس سال قبل نہ گرتی تو انگیلا میرکل اب کیا کر رہی ہوتیں؟ میرکل کا خواب کیا تھا؟ وہ اس وقت شاید امریکا کی سیاحت کر رہی ہوتیں مگر کسی امریکی ساختہ گاڑی میں تو بالکل نہیں۔
اشتہار
سرد جنگ کے دور میں ماضی کی دو حریف جرمن ریاستوں، سابقہ مشرقی جرمنی اور سابقہ مغربی جرمنی کے درمیان برلن کے منقسم شہر میں تعمیر کردہ دیوار نو نومبر 1989ء کے روز گرا دی گئی تھی۔
اس کے تقریباﹰ صرف 11 ماہ بعد ہی تین اکتوبر 1990ء کو دونوں جرمن ریاستوں کا باقاعدہ اتحاد عمل میں آ گیا تھا اور جرمنی پھر سے ایک متحدہ ملک بن گیا تھا، لیکن دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے زمانے کے مقابلے میں ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست۔
دیوار برلن کے انہدام کا تاریخی واقعہ دنیا میں بہت بڑی بڑی تبدیلیوں کی وجہ بنا تھا۔
اب اس دیوار کے خاتمے کے تین عشرے مکمل ہونے کے موقع پر جرمن جریدے ڈئر اشپیگل نے موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کا ایک انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں بہت سے سنجیدہ سیاسی اور سماجی معاملات پر بھی سوال جواب ہوئے، لیکن چند سوالات غیر سیاسی، بڑے منفرد اور بہت دلچسپ بھی تھے۔
ایسے ہی ایک سوال میں اس ہفت روزہ جرمن جریدے کے صحافی نے چانسلر میرکل سے پوچھا، ''اگر دیوار برلن نہ گرتی، تو آج آپ کہاں ہوتیں اور کیا کر رہی ہوتیں؟‘‘
اس پر انگیلا میرکل کا جواب تھا، ''میں جرمن چانسلر کے طور پر اپنی ذمے داریوں سے کہیں بہت دور، ایک مختلف دنیا میں، مشرقی جرمن میں بنی ہوئی کسی ترابانت گاڑی میں امریکا کی کسی بڑی طویل ہائی وے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے برُوس اسپرنگسٹین کے گیت سن رہی ہوتی، لیکن میرے استعمال میں امریکا کی بنی ہوئی کوئی گاڑی تو بالکل بھی نہ ہوتی۔‘‘
پھر ڈئر اشپیگل نامی جرمن نیوز میگزین کے صحافی نے انگیلا میرکل سے یہ بھی پوچھا، ''اگر جرمنی منقسم ہی رہتا، تو انگیلا کا مستقبل کیا ہوتا؟‘‘
اس پر انگیلا میرکل نے بڑی خوش دلی سے مذاق کرتے ہوئے کہا، ''اور جو کچھ بھی ہوتا، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پھر میری آپ سے اس وقت یوں ملاقات نہ ہو رہی ہوتی۔‘‘
ایک اور ملتے جلتے سوال کے جواب میں چانسلر میرکل نے کہا کہ اگر ماضی ویسا نہ ہوتا جیسا وہ تیس سال قبل ہو گیا تھا، تو پھر وہ اپنے 'خوابوں کو حقیقت کا روپ‘ دیتیں۔ انہوں نے کہا، ''میں چاہتی تھی کہ بیرون ملک اپنے پہلے طویل سیاحتی دورے کے لیے امریکا جاؤں۔‘‘
328 دن: انقلاب سے ریاستی معاہدے تک
عوام کی طاقت اور غلطی سے زبان سے نکل جانے والا ایک لفظ: نومبر 1989ء کی ایک رات شروع ہونے والے انقلاب نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے تب تک ناممکن تصور کیے جانے والے دوبارہ اتحاد کو 328 روز میں پایہٴ تکمیل تک بھی پہنچا دیا۔
تصویر: DHM, Peter M. Mombaur
’’... فوراً، بلاتاخیر‘‘
نو نومبر 1989ء: گنٹر شابووسکی کی زبان سے نادانستگی میں نکلے ہوئے یہ الفاظ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR کے شہریوں کے لیے سفر کی آزادی کا پیغام بن گئے۔ پھر عوام کے جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ مشرقی برلن کے ہزاروں شہریوں نے سرحدی راستوں پر دھاوا بول دیا۔ مغربی برلن میں اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
کمیونسٹ ریاست کو بچانے کی آخری کوششیں
تیرہ نومبر 1989ء: ڈریسڈن شہر میں سوشلسٹ یونٹی پارٹی کے ضلعی سربراہ ہنس مودروف کی کوشش ہے کہ جتنا کچھ بچ سکتا ہے، بچا لیا جائے۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے چار روز بعد پیپلز چیمبر نے اُنہیں وزارتی کونسل کا چیئرمین منتخب کر لیا لیکن اراکینِ اسمبلی اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ اراکین نے تب تک انتہائی طاقتور چلی آ رہی سوشلسٹ یونٹی پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
کوہل نے قدم اٹھانے میں دیر نہیں کی
28 نومبر 1989ء: یہ وہ دن تھا، جب اُس وقت کے وفاقی جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے جرمن پارلیمان میں اپنا دَس نکاتی منصوبہ پیش کیا، جس نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرانسیسی وزیر خارجہ رولانڈ دُوماس کہہ اُٹھے کہ جرمنوں میں ’بڑھتا ہوا غرور‘ نظر آ رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے نظام الاوقات کی حیثیت کے حامل اس منصوبے کے اعلان سے پہلے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
پرانی قیادت مستعفی ہو گئی
تین دسمبر 1989ء: پولٹ بیورو اور مرکزی کمیٹی عوامی دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکے اور مستعفی ہو گئے۔ استعفیٰ دینے والوں میں ایگون کرینس بھی شامل تھے، جنہوں نے GDR کی شہری حقوق کی تحریکوں کو مراعات دیتے ہوئے ریاست کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Peter Kroh
الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ
19 دسمبر 1989ء: ہیلموٹ کوہل کی ڈریسڈن کے ’چرچ آف آور لیڈی‘ نامی گرجا گھر کے سامنے تقریر ایک جذباتی نقطہٴ عروج تھی۔ اُن کے الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ مشرقی جرمنی کے لاکھوں شہریوں کے دل کی آواز بن گیا۔ اُنہوں نے امن اور آزادی میں دونوں ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کو اپنا نصب العین قراردیا۔
تصویر: imago/Sven Simon
آزادانہ انتخابات کے غیر متوقع نتائج
18 مارچ 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی قومی اسمبلی کے انتخابات۔ ہیلموٹ کوہل خود انتخابی مہم پر نکلے۔ اُنہیں سننے کے لیے لاکھوں لوگ جلسوں میں شریک ہوئے۔ عام طور یہی سمجھا جا رہا تھا کہ میدان سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھ رہے گا لیکن حتمی نتائج سامنے آئے تو غیر متوقع طور پر کوہل اور اُن کی اتحادی جماعتیں کو فتح حاصل ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kroh
جرمن مارک کی آمد آمد
یکم جولائی 1990ء: تب تک دوبارہ اتحاد ایک مسلمہ حقیقت بنتا نظر آ رہا تھا اور مشرقی جرمنی میں بھی آزاد معاشی اصول رائج کرنے کی بات کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اٹھارہ مئی کو بون میں دونوں ریاستوں کے درمیان اقتصادی، کرنسی اور سوشل یونین بنانے کے ایک ریاستی معاہدے پر دستخط کیے گئے اور یوں جی ڈی آر کے عوام کو بھی کرنسی جرمن مارک حاصل ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
گورباچوف نے جرمن اتحاد کے لیے ہاں کر دی
پندرہ اور سولہ جولائی 1990ء: متحدہ جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا تصور ماسکو قیادت کی نظر میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ تاہم جب نیٹو نے مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کیا تو ماسکو حکومت کو بھی اطمینان ہوگیا اور قفقاز میں ہیلموٹ کوہل نے گورباچوف سے یہ رضامندی حاصل کر لی کہ متحدہ جرمنی نیٹو کا حصہ بنے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمن اسمبلی کے لیے تاریخی دن
23 اگست 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک رپبلک کے اراکینِ اسمبلی نے وفاقی جمہوریہٴ جرمنی میں شمولیت کی منظوری دے دی۔ پی ڈی ایس کے سربراہ گریگور گیزی کے اس تبصرے پر اراکین ہنسنے لگے کہ پارلیمان نے اس منظوری کے ساتھ دراصل جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے خاتمے کی منظوری دی ہے۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
حتمی معاہدے کی راہ میں آخری رکاوٹ
بارہ ستمبر 1990ء: آخر میں معاملہ پیسے پر آ کر اٹک گیا تھا۔ بون کی وفاقی جرمن حکومت سوویت یونین کو مشرقی جرمنی سے سرخ فوج کے انخلاء کے لیے زرِ تلافی کے طور پر بارہ ارب جرمن مارک کی پیشکش کر رہی تھی جبکہ گورباچوف یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کم ہے۔ کوہل پہلے تو اپنی پیشکش پر جمے رہے، پھر اس پیشکش میں تین ارب کے قرضوں کا اضافہ کر دیا۔ یوں ’دو جمع چار معاہدے‘ کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
تصویر: Imago/S. Simon
نئے جرمنی کا پہلا دن
تین اکتوبر 1990ء: نیویارک میں دوسری عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں کے وُزرائےخارجہ تمام خصوصی حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ سابق مشرقی جرمن کمیونسٹ ریاست کی اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا، جس میں GDR نے وارسا پیکٹ سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ برلن کی اسمبلی کی عمارت رائش ٹاگ کے سامنے نصف شب سے جرمن پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر دو ملین افراد موجود تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
انہوں نے اپنی اس پسند کی وضاحت یوں کی، ''میں امریکا کی جغرافیائی وسعت، ثقافت اور تنوع کی وجہ سے وہاں طویل سیاحت کے لیے جانا چاہتی تھی، اس لیے بھی کہ مثلاﹰ روکی ماؤنٹینز دیکھوں اور ہائی ویز پر گاڑی چلاتے ہوئے مشہور امریکی گلوکار برُوس اسپرنگسٹین کے گیت سنوں۔‘‘
سابقہ مشرقی جرمن ریاست (جی ڈی آر) میں جوان ہونے والی اور اس وقت 65 سالہ انگیلا میرکل کی گاڑیوں کے حوالے سے بھی اپنی ہی خاص پسند ہے۔ کیا وہ امریکا کے اپنے طویل سیاحتی دورے کے لیے امریکا ہی میں بنی ہوئی کسی گاڑی کا انتخاب کرتیں؟
اس پر چانسلر میرکل نے مسکرا کر انکار کرتے ہوئے اور مذاقاﹰ منت سماجت کے سے لہجے میں کہا، ''نہیں نہیں، میں چھوٹی کاریں زیادہ پسند کرتی ہوں اور (سابقہ مشرقی جرمنی کی بنی ہوئی) کسی ترابانت سے زیادہ بہتر کوئی دوسری گاڑی بھلا کون سی ہو سکتی تھی؟‘‘
م م / ش ح (اے پی، روئٹرز)
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
9 نومبر 1989 کو دیوار برلن گرا دی گئی تھی۔ اس شام برلن میں بھرپور جشن منایا گیا تھا۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو وہ تصاویر دکھائیں گے جہاں مغربی اور مشرقی برلن کی تقسیم کے آثار اب بھی باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مشرقی گیلری
دریائے اشپری کے ساتھ 1316 میٹرطویل اب بھی دیوار برلن قائم ہے۔ اسے دنیا کی سب سے طویل ’اوپن ایئر گیلری‘ کہا جا سکتا ہے۔ 1990 میں اس دیوار کو دنیا کے مختلف ممالک کے مصوروں نے پینٹ کیا تھا۔ یہ دیوار ذاتی خواہشات، امیدوں اور خوابوں کی عکاس ہے۔ یہاں لگائی گئی تصاویر دیوار برلن گرنے کے بعد کی خوشی اور آزادی کو ظاہر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/S. Lubenow
برلن وال میموریل
برلن کے کسی بھی علاقے میں سابقہ ’ڈیتھ اسٹرپ‘ اتنی واضح نہیں جتنی کہ یہاں ہے۔ اس یادگار میں اسی میٹر طویل برلن وال اور ایک گارڈ ٹاور کی تعمیر نو کی گئی ہے۔ یہ کمپلیکس جرمنی کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم یادگار ہے۔ یہاں برلن وال میں ہلاک ہونے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/F. Wiechel-Kramüller
دیوار برلن کہا تعمیر کی گئی ؟
برلن شہر کے بہت زیادہ حصوں میں اب برلن وال نہیں دیکھی جا سکتی۔ مشرقی اور مغربی برلن اب ایک ہو چکے ہیں۔ شہر کے وسط میں پتھروں کے ذریعے ان جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں جہاں برلن وال تعمیر کی گئی تھی۔
تصویر: DW/F. Wiechel-Kramüller
چیک پوائنٹ چارلی
مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد دیکھنے کے لیے سیاح اس جگہ کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ اس چیک پوائنٹ سے صرف غیر ملکیوں اور سفارت کاروں کو گزرنے کی اجازت تھی۔ اکتوبر 1961 میں برلن وال کی تعمیر کے کچھ ہی عرصے بعد اس جگہ امریکی اور سویت ٹینک آمنے سامنے آ گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kastl
آنسوؤں کا محل
اس مقام پر بہت دکھی الوداعی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہاں فریڈریش سٹراسے پر قائم سرحد سےسینکڑوں لوگ مشرقی برلن سے مغربی برلن گئے تھے۔ سیاح اُس راستے سے گزر سکتے ہیں جہاں پاسپورٹس چیک کیے جاتے تھے۔ سیاح اس گزرگاہ سے چلتے ہوئے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اس وقت شہریوں کو کتنی سختی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
تصویر: ullstein - Mrotzkowski
ہوہین شُون ہاؤزن میموریلl
سن1994 سے اس سابقہ ’ستاسی جیل‘ کو کمیونسٹ آمریت کے دوران متاثرین کی یادگار بنا دیا گیا تھا۔ سیاحوں کو بتایا جاتا ہے کہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کس طرح سے لوگوں کو قید رکھتی تھی اور تفتیش کے دوران کیسے حربے استعمال کیے جاتے تھے۔ یہ تفصیلات سابقہ قیدی بیان کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken
ٹوئیفل بیرگ لسننگ اسٹیشن
دوسری عالمی جنگ کے بعد اس جگہ کو ملبہ پھینکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جنگ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی عمارات کے ملبہ کے ذریعے مغربی برلن کے سب سے اونچے مقام پر ٹوئیفلبرگ کی تعمیر کی گئی تھی۔ سرد جنگ کے دوران امریکا کی قومی سکیورٹی ایجنسی اس مقام کو ’لسسننگ اسٹیشن‘ کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ اس مقام پر وارسا معاہدے میں شریک ممالک کے عسکری پیغامات سنے جا سکتے تھے۔
تصویر: Ullstein/Getty Images
گلینیکے برج
آپ سمجھتے ہوں گے کہ شاید جاسوسوں کا تبادلہ صرف فلموں میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن برلن اور پوسٹ ڈام کے درمیان اس پل پر ایسے تین آپریشنز کیے گئے ہیں۔ سٹیون اسپیلبرگ نے اس تاریخی مقام کو اپنی فلم ’بریج آف سپائز‘ میں بھی استعمال کیا تھا۔
تصویر: imago/Camera4
جرمن سپائے میوزیم
پوسٹ ڈامر پلاٹز پر بنایا گیا یہ عجائب گھر آپ کو جاسوسی کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس عجائب گھر میں خاص توجہ سرد جنگ کے دوران برلن کی سرگرمیوں پر دی گئی ہے۔