روسی صدر نے یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ماہرین ان کی اس دھمکی کو کیسے دیکھتے ہیں اور اگر ایسا ہوا، تو مغرب اس کے رد عمل میں کیا کر سکتا ہے؟
اشتہار
حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے دھمکی دی کہ اگر روس کی 'علاقائی سالمیت‘ کو خطرہ لاحق ہوا، تو یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ پوٹن نے کہا تھا، ''جو ہمیں جوہری ہتھیاروں سے بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہوا کا رخ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر روسی صدر نے باور کرایا کہ 'یہ محض دھمکی نہیں‘۔
پوٹن کے اس بیان پر مغرب میں بحث چھڑ گئی ہے کہ اس کے رد عمل میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ولادیمیر پوٹن اس سلسلے میں پہل کریں گے۔ امریکہ نے سن 1945 میں جاپان کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کیے تھے اور اس کے بعد سے اب تک کسی بھی ملک نے ایسا نہ کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کئی ماہرین اور متعلقہ حکام کے ساتھ روس کے ممکنہ جوہری حملے کی صورت حال کے بارے میں بات کی۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو کی فورسز ممکنہ طور پر ایک یا ایک سے زیادہ 'ٹیکٹیکل‘ یا میدان جنگ والا جوہری بم استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ چھوٹے اور کم شدت والے بم ہوتے ہیں، جن میں 0.3 کلوٹن سے لے کر 100 کلوٹن دھماکہ خیز طاقت ہوتی ہے۔
روایتی جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں ٹیکٹیکل بم میدان جنگ میں محدود سطح پر نقصان پہنچاتے ہیں۔ امریکہ نے سن 1945 میں ہیروشیما پر جو ایٹم بم گرایا تھا وہ 15 کلوٹن کا تھا۔ جب کہ روس سن 1961 میں 58 میگاٹن کے بم کا تجربہ کر چکا ہے۔
کیا جرمنی یوکرین کے لیے مزید اسلحہ بھیجے گا؟
02:05
واشنگٹن میں CSIS انٹرنیشنل سکیورٹی پروگرام سے وابستہ عسکری ماہر مارک کینسیئن کے مطابق روس ممکنہ طور پر اگلے مورچوں پر جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا۔ 32 کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے 20 چھوٹے 'ٹیکٹیکل‘ بموں کی ضرورت پڑ سکتی ہے، اس میں خطرہ کافی زیادہ ہے۔ اس کے برعکس ماسکو پانی کے اوپر یا یوکرین کے اوپر کافی اونچائی میں ایسا بم استعمال کر سکتا ہے، جس سے جانی نقصان کم ہو گا مگر ایک الیکٹرانک پلس جاری ہو گی، جس سے بجلی سے چلنے والے آلات بند ہو سکتے ہیں۔ اس سے ایک سخت پیغام بھیجا جا سکتا ہے۔
مگر یہ بھی ممکن ہے کہ پوٹن کسی یوکرینی فوجی اڈے یا کییف جیسے شہر کو نشانہ بنائیں، جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر ملک کی سیاسی قیادت بھی ہدف بن سکتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے جوہری پالیسی کے سابق ماہر جون وولفسٹل نے جمعے کو 'سب اسٹیک‘ پر لکھا کہ اس طرح کے حالات 'ممکنہ طور پر نیٹو اتحاد اور پوٹن کے خلاف عالمی اتفاق رائے کو تقسیم کرنے کے لیے تیار کیے جائیں گے۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
مغرب فی الحال اس بارے میں ابہام کا شکار ہے کہ ممکنہ جوہری حملے کا کس طرح جواب دیا جائے۔ امریکہ اور نیٹو جوہری خطرے کے آگے کمزور دکھنا نہیں چاہتے۔ لیکن وہ اس سے بھی بچنا چاہیں گے کہ یوکرین مین جاری جنگ ایک وسیع تر، تباہ کن عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مغرب کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا اور یہ کہ جواب صرف امریکہ کی بجائے نیٹو کی طرف سے ایک گروپ کے طور پر آنا چاہیے۔ امریکہ نے اس وقت نیٹو ممالک میں اپنے 100 کے قریب ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار رکھے ہوئے ہیں اور وہ روسی افواج کے خلاف جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔ 'اٹلانٹک کونسل‘ کے میتھیو کرونگ کے مطابق، یہ ممکنہ امریکی قدم ماسکو کی اس کے اقدامات سے منسلک خطرات کی طرف توجہ دلائے گا۔ تاہم 'یہ روس کا جانب سے انتقامی کارروائی کو بھڑکا بھی سکتا ہے، جس سے بڑے تنازعے اور بھاری تباہی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
ایک اور خطرہ یہ ہے کہ نیٹو کے کچھ ارکان جوہری ردعمل کو مسترد کر سکتے ہیں، اور یہ ممکنہ صورتحال نیٹو اتحاد کو کمزور کرے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ روسی جوہری حملے کی صورت میں روایتی فوجی یا سفارتی انداز میں جواب دینا اور یوکرین کو روس پر حملہ کرنے کے لیے مزید ہتھیار فراہم کرنا زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔