اگر شادی میری ہے تو مرضی میری کیوں نہیں؟
26 جون 2008سکولوں اور کالجوں میں گرمیوں کی چھٹیاں کہیں شروع ہو چکی ہیں اور کہیں شروع ہونے والی ہیں۔ جرمنی کے سکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات شروع ہو چکی ہیں اور یہاں موجود غیر ملکی طلباء کے لئے ان چھٹیوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آبائی ممالک میں تھوڑا وقت گزار سکیں گے۔ لیکن ترک نژاد جرمن نوجوان لڑکیوں کی اکثریت کے لئے یہ اچھا نہیں ہے کیونکہ ان کے والدین انہیں دادا دادای اور قریبی رشتے داروں سے ملا قات کے بہانے آبائی وطن لے جاتے ہیں اور وہاں زبردستی ان کی شادی طے کر دیتے ہیں۔
شادیوں کے معاملے میں لڑکیوں کی پسند نا پسند کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر وہ انکار کریں تو ان پر دباو ڈالا جاتا ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے ہی جرمنی میں حقوق نسواں کی تنظیموں کو ان لڑکیوں کےجانب سے مدد کی درخواستیں موصول ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ بات ہے سن دو ہزار سات کی۔ اکیس سالہ ترک نژاد جرمن لڑکیMelek کو ایک مہینہ پہلے سے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کا انتظار تھا۔ یہ اس کا اسکول میں آخری سال تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ وہ چھٹیوں میں ترکی جائے گی اور وہاں اپنے رشتے داروں سے ملے گی اور خوب آرام بھی کرے گی۔ چھٹیاں شروع ہونے کے ساتھ ہی وہ اپنے والدین کے ساتھ ترکی تو چلی گئی لیکن یہ چھٹیاں اس کی سوچ کے برعکس تھیں۔
ترکی پہنچتے ہی اس کے والدین نے اس کے سامنے ایک ترک نوجوان کو لا کھڑا کیا اور اسے بتایا گیا کہ اس کی شادی اس کے ساتھ طے کر دی گئی ہے۔ میلک نے اس شادی سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے انکار پر اس کو گھر میں قید کر دیا گیا۔ خوش قسمتی سے میلک شادی سے پہلے ہی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی اور واپس جرمنی آگئی۔
Birgit Hoffmann-Reuter کا کہنا ہے کہ مسلمان فیمیلیز میں یہ بات عام ہے کہ والدین اپنی بچیوں کی شادی خود طے کرتے ہیں۔ برگٹ ہوفمان کی تنظیم جبری شادیوں کی شکار لڑکیوں کوانٹرنیٹ پر صلاح و مشورہ فراہم کرتی ہے۔ برگٹ ہوفمان کہتی ہیں: ’’کچھ والدین ایسے ہیں جو کہ اپنی بیٹیوں کی شادی بہتر جگہ پر کرنا چاہتے ہیں اور اپنی بیٹی کو ایک اچھا شریک حیات دینا چاہتے ہیں۔ وہ اکثر اپنےقریبی رشتے داروں سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے بھی ایسا کرتے ہیں۔ کچھ ایسے والدین بھی ہیں‘ بالخصوص باپ‘ جن کو یہ ڈر رہتا ہے کہ ان کا اپنی بیٹی پر رعب کم نہ ہو جائے اور اسی لئے وہ طاقت کا اس طرح استعمال کرتے ہیں۔‘‘
جرمنی آنے کے بعد میلک اپنے والدین کے گھر واپس جانے سے خوفزدہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے والدین اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کروا نے کی کوشش ضرور کریں گے۔ تھوڑے بہت بچے ہوئے پیسوں کے ساتھ میلک نے دوسرے شہر میں ہوٹل میں کمرا کرایے پرلے لیا ۔ اس کے بعد اسے انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ایسی تنظیم کے بارے میں پتا چلا جو جبری شادیوں کی شکار لڑکیوں کی مدد کرتی ہے۔ اسی تنظیم کی مدد سے میلک کو سر چھپانے کی جگہ ملی جہاں اس نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے ہی اس تنظیم کو بڑی تعداد میں جبری شادیوں کے مسائل سے دوچار لڑکیوں کی ای میلز ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔
باشید نجفی جرمن شہر کولون میں تارکین وطن کے ایک مشاورتی مرکز Agisra میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’گرمیوں کے مہینوں میں چھٹیوں کا وقت ہوتا ہے اور گرمیوں کے اس موسم میں بہت سی شادیاں اور تقریبات بھی ہوتی ہیں۔ مطلب یہ کہ شادی کے لئے بھی یہ موزوں موسم ہے۔ سکول ختم ہو جاتا ہے اور بہت سی نوجوان لڑکیوں کے لئے ایسا ہے کہ سکول ختم‘ مطلب یہ کہ وہ شادی کے لئے تیار ہیں۔‘‘
آگسرا میں کام کرنے والی خواتین کو گرمیوں میں سرکھجانےکی فرصت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے پاس ایسے بہت سے کیسسز آتے ہیں جن میں والدین لڑکیوں کی زبردستی شادی کروا رہے ہوتے ہیں۔ جرمنی میں سماجی کارکن اور ماہر نفسیات‘ ان لڑکیوں کی جانب سے ارسال کردہ بہت سی بے نام ای میلز کا فوراً جواب دینے میں مصروف ہیں۔ باشید نجفی کے مطابق ہر واقعہ دوسرے واقعے سے مختلف ہوتا ہے۔’’بہت سی لڑکیاں دوسرے ممالک سے بھاگ کر آتی ہیں کیونکہ وہاں ان کی زبردستی شادی کروائی جا رہی ہوتی ہے اور اُس ملک میں انہیں کوئی تحفظ نہیں ملتا۔ دوسرا گروپ ان لڑکیوں کا ہے جنہیں شادی ہی کے لئے جرمنی بھیجا جاتا ہے۔ تیسرا وہ ہےکہ جن کوجرمنی سے شادی کے لئے دوسرے ملک بھیجا جاتا ہے اور ایسی لڑکیاں بھی ہیں جن کی پرورش جرمنی میں ہوتی ہے اور یہاں انکی جبری شادی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ‘‘
ہر ایک واقعے کے لئے تنظیم آگسرا مختلف حل ڈھونڈتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو والدین سے بات چیت کی جاتی ہے اور انہیں قائل کرنےکی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی خواہش کا خیال رکھیں۔ کوئی سمجھوتہ نہ ہونے اور لڑکی کی طرف سے اپنے خاندان سے الگ رہنے کے فیصلے کی صورت میں یہ تنظیم کسی دوسرے شہر میں اس لڑکی کو نئی زندگی کا آغاز کرنے میں مدد دیتی ہے۔
باشید نجفی کہتی ہیں کہ ترک نژاد جر من لڑکیوں میں خود اعتمادی کی کمی بھی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ انہوں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ نوجوان لڑکیوں میں انکار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔
’’ یہ بہت ضروری ہے کہ ان لڑکیوں میں خود اعتمادی پیدا کی جائے۔ ہم نے اپنے کام کے دوران یہ دیکھا ہے کہ لڑکیاں پہلے انکار نہیں کرتیں اور اگر کر لیں تو پھر اس پر ڈٹ جاتی ہیں اور فیملی بھی ان کی بات کو تسلیم کر لیتی ہے۔ ‘‘
جرمنی میں جبری شادی کے لئے مجبور کی جانے والی لڑکیوں کے بارے میں صحیح اعدادو شمار کسی کے پاس نہیں ہیں۔ تا ہم خواتین کی ایک تنظیم Terre des Femmes کے محتاط اندازوں کے مطابق ہر سال ایک ہزار سے زیادہ لڑکیوں کی جبری شادی کرائی جاتی ہے۔
جرمنی میں تقریباً تہتر لاکھ غیر ملکی آباد ہیں یعنی کہ پوری آبادی کا نو فی صد حصہ۔ یہاں تارکین وطن میں سب سے بڑی اقلیت ترکوں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نہ صرف جرمنی‘ بلکہ دوسرے یورپی ممالک میں بھی‘ تارکین وطن نوجوان لڑکیوں کو جبری شادی کے مسائل کا سامنا ہے۔
کیا جنوبی ایشیائی ممالک‘ بالخصوص پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے جرمنی آنے والی فیملیز میں بھی جبری شادیاں عام ہیں؟ اس اہم سوال کا جواب جاننے کے لئے ہم نے بات کی یہاں بون میں شاہین گیلانی سے۔ گیلانی گُزشتہ پچیس برسوں سے جرمنی میں صحافت کے پیشے سے وابستہ رہی ہیں اور آج کل تعلیمی ماہر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔
رواں برس مارچ میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطا بق برطانیہ میں ہر سال تین ہزار لڑکیوں کو جبری شادی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر واقعات ایسے خاندانوں میں عام ہیں جو جنوبی ایشیائی ممالک سے آکر برطانیہ میں آباد ہوئے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ کے تعلق سے ہم نے بات کی پاکستانی نژاد برطانوی شہری فریحہ نوید سے‘ جو گلاسگو سٹی کونسل کے ساتھ ترجمان کے طور پر کام کرتی ہیں۔