1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہتیونس

چینی کی قلت نے تیونس میں عید کی خوشیوں کو پھیکا کر دیا

5 اپریل 2024

سرکاری خزانے میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے 2022ء کے اواخر سے تیونس کے شہریوں کو چینی اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی قلت کا سامنا ہے۔

Eid al-Fitr in Deutschland 2016
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber

شہر کے مرکز میں معمول کی گہما گہمی کے درمیان ایک سپر مارکیٹ کے باہر درجنوں گاہکوں پر مشتمل ایک رینگتی ہوئی لمبی قطار۔ یہ منظر شمالی افریقی ملک تیونس کے تیونس ہی کہلانے والے دارالحکومت کا ہے، جہاں لوگ چینی خریدنے کی غرض سے قطار بنائے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔    

رمضان ختم ہونے کو ہے اور عیدالفطر یا 'میٹھی عید' کی آمد آمد ہے، جس میں انہیں میٹھا بنانے کے لیے چینی کی ضرورت پڑے گی۔ تاہم اس وقت تیونس کو چینی کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے، یہاں تک کہ ہر ہفتے ایک گاہک کو صرف دو کلو گرام چینی فروخت کی جارہی ہے۔

اس بارے میں تیونس کے  ایک شہری، 58 سالہ لامیا بورادی کا کہنا ہے، ''میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن تیونس میں چینی خریدنے کے لیے ہمیں قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا۔‘‘

تیونس میں دیگر بنیادی اشیاء کی طرح چینی پر بھی ریاست کی جانب سے سبسڈی دی جارہی ہے۔ لیکن سرکاری خزانے میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے 2022ء کے اواخر سے وہاں کے شہریوں کو چینی کے علاوہ دیگر اشیائے خورد و نوش، جیسے آٹا اور سوجی کی قلت کا بھی کا سامنا ہے۔

ایسے میں وہاں کے لوگ عیدالفطر پر میٹھا کیسے بنائیں؟

تمام شمالی افریقہ میں یہ راویت رہی ہے کہ عیدالفطر کے موقعے پر بڑی مقدار میں میٹھے پکوان بنائے جاتے ہیں، جن سے پھر کئی دنوں تک لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔

تاہم بوراوی کا کہنا ہے، "اس سال ہم اس خوشی سے محروم ہی رہیں گے۔"

شوگر مافیا اور گنے کے غریب کاشتکار

04:06

This browser does not support the video element.

ان کے علاوہ چینی خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے افراد میں سے ایک 40 سالہ سمیع بھی تھے۔ان کے ساتھ ہی اس قطار میں ان کے گھر کے دیگر افراد بھی کھڑے تھے تاکہ زیادہ مقدار میں چینی خریدی جا سکے۔

سمیع بتاتے ہیں، ''ایک دن ہم آٹے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تو دوسرے دن سوجی کے لیے اور تیسرے دن چینی کے لیے۔‘‘

'چینی ہو تو ہی کام کیا جا سکتا ہے'

چینی، آٹے اور سوجی کی قلت کی وجہ سے تیونس میں کئی بیکریوں کو بھی نقصان کا سامنا ہے۔

تیونس میں ایک بیکری میں ملازمت کرنے والے چوکری بواجیلا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہمارے کام میں چینی ایک بہت اہم جزو ہے۔ اگر ہمارے پاس چینی ہو تو ہی کام کیا جا سکتا ہے اور بصورت دیگر ہم کچھ نہیں کر پاتے۔‘‘

تیونس کی روایتی مٹھائیاں بنانے میں مہارت رکھنے والے بواجیلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب گاہک ان سے پہلے کی نسبت کم پیسٹریاں خرید رہے ہیں۔

' یہ سب کیوں بھگتنا پڑ رہا ہے'

      .

گزشتہ چند برسوں کے دوران تیونس میں کساد بازاری، مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید بھی کم ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تیونس کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

ان حالات سے پریشان چینی لینے کے لیے قطار میں کھڑی 40 سالہ حسنہ کے مطابق وہ 35 منٹ سے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔"ہمیں یہ سب کیوں بھگتنا پڑ رہا ہے؟ ہم اس حال تک کیسے پہنچے؟"

ان کے اس سوال پر ان کے قریب ہی کھڑے ایک شخص نے کہا، "ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم غزہ کے ان لوگوں سے بہت بہتر حال میں ہیں جو اس وقت بھوک سے مر رہے ہیں۔"

 دوسری طرف کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو تیونس میں معاشی بدحالی کے باودجود مثبت سوچ  رکھتے ہیں۔ ان میں نائلہ بھی شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ چینی کے لیے لمبی قطار میں کھڑے ہونے کے بجائے اپنی عادات کو تبدیل کرنا زیادہ پسند کریں گی۔ بقول ان کے، "مجھے اب کڑوی کافی پریشان نہیں کرتی۔‘‘

ز ع / م ا (اے ایف پی)

     

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں