سن دو ہزار انیس میں کن ممالک کی سیاحت کی جائے؟مشہور فوربز میگزین نے اپنی ایک حالیہ لسٹ میں عالمی سیاحوں کو پاکستان جانے کی تجویز دی ہے۔
اشتہار
اس تحریر کے مطابق سیاحوں کو چاہیے کہ وہ قراقرم ہائی وے کے ذریعے ہنزہ، شگر اور خپلو کا دورہ کریں ۔ یہ مقامات پاکستانی علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہیں، جو دنیا بھر کے سیاحوں میں مقبول ہیں۔ خاص طور پر یہاں کوہ پیما کے ٹو، نانگا پربت اور دیگر پہاڑوں کو سر کرنے کے لیے اس خطے کا رخ کرتے ہیں۔
ٹریویل ویب سائٹ جیو ایک کے ساتھ کام کرنے والی سارہ باربیری کے مطابق پاکستان کے شمال مشرقی علاقوں میں سیاح انتہائی خوبصورت نظارے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنی تحریر میں اس علاقے کے ہوا میں جھولتے ہوئے پلوں کی بھی تعریف کرتی ہیں۔
پاکستان کے علاوہ اس فہرست میں کولمبیا، بھوٹان، پرتگال، روانڈا، منگولیا، ایتھوپیا اور میکسیکو بھی شامل ہیں۔
کے ٹو یا چھو گوری: ایک چیلنج
پاکستان کے شمالی علاقے میں کئی انتہائی بلند پہاڑی چوٹیاں واقع ہے۔ ان میں کے ٹو کے علاوہ نانگا پربت، گیشن بروم اور براڈ پیک نمایاں ہیں۔ یہ کوہ پیماؤں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Daffue
کے ٹو: دوسری بلند ترین چوٹی
پاکستان کا شمالی پہاڑی علاقہ تین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے ملاپ کی جگہ بھی ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے تین اسی علاقے میں واقع ہیں۔ کے ٹو ان میں سے ایک ہے، جس کی بلندی 8611 میٹر( 28251 فٹ) ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/S. Majumder
سفاک پہاڑی چوٹی : کے ٹو
کے ٹو پہاڑی چوٹی کا پورا نام ماؤنٹ گوڈوِن آسٹن ہے۔ اردو میں اسے چھو گوری (چھو غوری) کہتے ہیں۔ بلتی زبان بولنے والے مقامی لوگ کے ٹو کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ اب تک اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں 75 سے زائد کوہ پیما جاں بحق ہو چکے ہیں۔ روایت کے مطابق ہر چار برس بعد اس چوٹی کی جانب بڑھنے والوں میں سے کوئی ایک ہلاک ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
کے ٹو ٹریجڈی
سن 2008 میں کے ٹو کی مہم میں جانے والے گیارہ کوہ پیماؤں کو شدید برفانی طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے کر ہلاک کر دیا تھا۔ انہی میں ایک پاکستانی فضل کریم بھی شامل تھا۔ ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں کا تعلق نیپال، جنوبی کوریا، آئر لینڈ، فرانس اور سربیا سے تھا۔ ہلاک شدگان میں مشہور فرانسیسی کوہ پیما Hugues D'Aubarede بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو کے راستوں کے ماہر: جہان بیگ
وادئ ہنزہ کے شمشال درے کے باسی جہان بیگ کے ٹو سر کرنے والوں میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی فضل علی کی طرح تین مرتبہ کے ٹو سر کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ جہان بیگ سن 2008 میں کے ٹو کی مہم کے دوران گیارہ ہلاک ہونے والوں میں دوسرے پاکستانی کوہ پیما تھے۔ تصویر میں اُن کی بیوی گل دانا اپنے شوہر کی تصویر تھامے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو سر کرنے والی پہلی پاکستانی ٹیم
کے ٹو چوٹی کی ابتدائی نشاندہی کے بعد 26 جولائی سن 2014 کو پہلی مرتبہ چھ پاکستانی کوہ پیماؤں کی ٹیم تین اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مہم کے ٹو کی نشاندہی کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر کی گئی تھی۔ اس کوہ پیمائی کے دوران چوٹی کی پیمائش بھی کی گئی۔ اس میں ایک پاکستانی کوہ پیما رحمت اللہ بیگ بھی شامل تھے۔ تصویر میں وہ اپنے یورپی و پاکستانی ساتھیوں کی تصاویر دکھا رہے ہيں۔
تصویر: Getty Images/A. Qureshi
کے ٹو کی ہمسایہ چوٹی : براڈ پیک
براڈ پیک بھی آٹھ ہزار سے بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع ہے۔ بلتی زبان میں اسے فَلچن کنگری پکارا جاتا ہے۔ یہ کوہ قراقرم کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کو سر کرنے والے ایرانی کوہ پیما رامین شجاعی اپنے ملکی پرچم کے ساتھ۔