سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے ہفتے نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔ بھارتی وزیر اعظم کئی سرکاری تقریبات میں شرکت کے لیے امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں اور ان کی صدر جو بائیڈن سے بھی ملاقات طے ہے۔
اشتہار
سابق امریکی صدر اور آئندہ صدارتی انتخابات میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ وہ اگلے ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔
ٹرمپ نے یہ اعلان مشیگن میں ایک انتخابی مہم کے دوران کیا۔ انہوں نے ایک طرف بھارت کو تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا ملک قرار دیا لیکن دوسری جانب مودی کو "شاندار" شخصیت کا مالک بھی کہا۔ ٹرمپ نے ملاقات کے مقام کی تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ "وہ اگلے ہفتے مجھ سے ملنے آرہے ہیں۔"
بھارت کی وزارت خارجہ نے منگل کو مودی کے امریکی دورے کا شیڈول جاری کیا لیکن اس میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کا کوئی ذکر نہیں۔
بائیڈن 'کواڈ رہنماؤں' کی میزبانی کریں گے
صدر جو بائیڈن 21 ستمبر کو امریکی ریاست ڈیلاویئر میں "کواڈ" کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کریں گے جس میں مودی، آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز اور جاپانی وزیر اعظم کشیدا فومیو بھی شریک ہو رہے ہیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے مطابق، مودی اپنے دورے کے دوران نیویارک میں کچھ سرکاری تقریبات میں بھی شرکت کریں گے۔
حالیہ مہینوں میں، بائیڈن سے ملاقات اور دیگر سربراہی اجلاسوں کے لیے امریکہ کا دورہ کرنے والے کچھ عالمی رہنما ٹرمپ سے بھی مل چکے ہیں۔ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن امیدوار کا مقابلہ نائب صدر کملا ہیرس سے ہے۔
ٹرمپ مودی تعلقات
سابق صدر کے دور میں ٹرمپ اور مودی کے درمیان کافی گرم جوش تعلقات تھے۔ مودی کے 2019 کے دورہ امریکہ کے دوران، دونوں نے "ہاؤڈی، مودی!" میں ایک دوسرے کی تعریف کی تھی۔ ٹیکساس میں منعقدہ اس تقریب میں 50,000 سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔
ٹرمپ جب 2020 میں بھارت کے دورے پر آئے تھے، تو مودی نے ٹرمپ کے لیے ایک بڑی ریلی کی میزبانی کی تھی، جہاں لوگوں کے ایک ہجوم نے "نمستے ٹرمپ" ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔