بھارت: معافی مانگنے پر بی جے پی کے کارکن قیادت سے سخت ناراض
6 جون 2022پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا بیانات پر مسلم ملکوں کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد بھارت میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دو رہنماؤں کو معطل کر دیا۔ لیکن ہندو قوم پرست جماعت کے کارکنان اس اقدام سے سخت ناراض ہیں اور وزیر اعظم مودی اور پارٹی قیادت کے خلاف وہ سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔
ان دونوں معطل رہنماؤں نے آج پیر کو اپنی طرف سے الگ الگ جاری بیانات میں غیر مشروط معافی بھی مانگ لی ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں مسلمانوں کی جانب سے ان دونوں رہنماؤں، بی جے پی کی سابق قومی ترجمان نوپور شرما اور دہلی یونٹ کے ترجمان نوین جندل، کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے وہیں بی جے پی کے عام کارکن اپنی پارٹی کے اقدام سے دل گرفتہ اور سخت ناراض ہیں۔
خمیازہ بھگتنا پڑے گا
دونوں رہنماؤں کو معطل کرنے کے بی جے پی کے فیصلے کے بعد سے ہی پارٹی کے عام کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ بیشتر سخت گیر کارکن اسے'ہندوؤں اور بھارت کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام' قرار دے رہے ہیں اور وزیراعظم مودی کی قائدانہ صلاحیت پر سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔بی جے پی کے متعدد کارکنوں کا کہنا ہے کہ سن 2024 کے عام انتخابات میں پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
کھل کر بولنے کو تیار نہیں
تاہم بی جے پی اور اس سے وابستہ دیگر ہندو قوم پرست اور شدت پسند جماعتوں کے رہنما اس معاملے پر کھل کر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو نے آر ایس ایس کی ذیلی اور ہندور شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی) کے ترجمان ونود بنسل سے جب بی جے پی کے اقدام پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے فون کاٹ دیا کہ وہ اس پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتے۔
بی جے پی کی یوتھ ونگ کے سکریٹری تیجندر بگا سے جب ڈی ڈبلیو اردو نے ان کا ردعمل جاننا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ پارٹی نے جو بیان جاری کیا ہے وہ کافی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پارٹی کارکنان اس بیان سے حوصلہ شکنی کی شکایت کر رہے ہیں تو تیجندر بگا نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
اتنی شرمندگی کبھی نہیں اٹھائی تھی
بی جے پی کے سینیئر رہنما اور تریپورا کے سابق گورنر تتھا گت رائے نے اپنے دل کا درد ایک ٹوئٹ کرکے بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی ترجمان نوپور شرما کے ساتھ جو "سلوک" کیا گیا اس سے انہیں سخت "مایوسی" ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ وہ بی جے پی کی حمایت صرف اس کے نظریات، مذہب، سیاست اور قیادت کی وجہ سے کرتے ہیں جو کہ ان کے دل کے بہت قریب ہے۔ انہیں کسی چیز کا خوف یا کسی انعام کی توقع نہیں ہے۔
بی جے پی کے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے بی جے پی ترجمانوں کو پارٹی کے مرکزی دھارے سے دور عناصر کہے جانے پر طنز کرتے ہوئے کہا، ''نوپور شرما مرکزی دھارے سے دور ہیں اور وہ بھی پارٹی کے ترجمان کے طور پر۔‘‘
ہندو قوم پرست جماعت شیوسینا نے کہا، "جب ہندوتوا پر مصیبت آتی ہے تو بی جے پی والے منہ میں نمک کی ڈلی لے کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔"
تسلی دینے کو کوشش
ناراضگی اور مایوسی کے مدنظر کارکنوں کو غالباً تسلی دیتے ہوئے پارٹی صدر جے پی نڈا نے کہا، "بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جس کے پاس رہنما ہیں، پالیسی ہے، نیت ہے، پروگرام ہے، کارکنان ہیں اور ماحول ہے۔ ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے پاس اگر رہنما ہیں تو نیت نہیں ہے، نیت ہے تو پالیسی نہیں ہے، پالیسی ہے تو پروگرام نہیں ہے اور اگر پروگرام ہے تو کارکنان نہیں ہیں۔" انہوں نے تاہم اپنی تقریر میں نوپور شرما تنازعے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی نکتہ چینی
بی جے پی کی جانب سے اپنے دو ترجمانوں کی معطلی اور پیغمبر اسلام کی توہین کے معاملے کو افسوس ناک قرار دیے جانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کے خلاف سخت رویہ اپنا لیا ہے۔
کانگریس پارٹی نے کہا کہ یہ بی جے پی کی غلطی ہے بھارت کی غلطی نہیں۔ اس لیے بی جے پی کو پورے بھارت سے معافی مانگنی چاہیے۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا،"غلطی کرے بی جے پی اور معافی مانگے بھارت، یہ قطعی قابل قبول نہیں۔ ایک وزیر اعظم اور اس کی پارٹی نے تمام بھارتیوں کا سر شرم سے نیچے جھکا دیا۔"
ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا، "کانگریس نے واقعی 70برسوں میں وہ نہیں کیا تھا جو مودی جی نے آٹھ برسوں میں کر دکھایا۔ اتنی ذلت، اتنی شرمندگی ہم نے کبھی نہیں اٹھائی تھی۔"