سائنسدانوں نے اہرام مصر کے قریب دریائے نیل کی ایک مدفون شاخ دریافت کر لی ہے، جس سے ممکنہ طور پر اس سوال کا جواب مل سکتا ہے کہ قدیمی مصریوں نے اتنے بھاری پتھر کیسے منتقل کیے؟
تصویر: Addictive Stock/Shotshop/picture alliance
اشتہار
مصر میں واقع عظیم اہرام کے حوالے سے سب سے حیران کن سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ قدیم مصری اتنے بھاری پتھر اس مقام پر منتقل کیسے کر پائے کہ جب نہ کوئی کرین تھی اور نہ اتنے بھاری پتھر لے کر چلنے والی کوئی گاڑی۔
تاہم سائنسدانوں نے اب مصری علاقے جیزہ میں واقع ان اہرام کے قریب دریائے نیل کی ایک مدفون شاخ دریافت کی ہے۔ صدیوں پہلے دریائے نیل یہاں سے گزرتا تھا اور ممکنہ طور پر اسی ذریعے سے قدیم مصری بھاری تعمیراتی بلاکس کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
اس بابت ایک تحقیقی رپورٹ جمعرات کے روز شائع ہوئی۔ ماہرین کے مطابق دریا کی اس شاخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار سات سو سے چار ہزار سات سو برس قبل کیوں یہ اہرام ایک خاص قطار میں تعمیر کیے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تب دریا کی موجودگی کی وجہ سے یہ ایک سرسبز علاقہ تھا اور آج کی طرح یہاں صحرا نہیں تھا۔
اس علاقے میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے حال ہی میں پرانا قبرستان بھی دریافت کیا گیا تھاتصویر: Archaeological Prospection
واضح رہے کہ قدیمی دنیا کے سات عجوبوں میں سے یہ واحد سلامت عجوبہ ہے، جو مصری فراعین کافرے، چیاپس اور میکرینو کے اہرام پر مشتمل ہے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ ایک طویل مدت سے اس خیال کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ان اہرام کے قریب سے ضرور کوئی آبی دھارا گزرتا تھا، جسے قدیمی مصریوں سے تعمیراتی سامان کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کیا۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا ولمنگٹن سے وابستہ اور اس مطالعے کے مرکزی محقق ایمان غنیم کے مطابق، ''کسی کو آبی دھارے کے درست مقام کا علم نہیں تھا، نہ ہی اس کی شکل یا حجم کے بارے میں درست معلومات تھیں۔‘‘
جرمنی: اہرام کی سرزمین؟
جرمنی کے بارے میں خیال آتے ہی اہرام ہرگز وہ پہلی چیز نہیں جو ذہن میں آئی ہو، لیکن یہ پھر بھی ان سے بھرا ہوا ہے۔ آئیے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کی منتخب تصاویر دیکھیے۔
تصویر: Waltraud Grubitzsch/dpa/picture-alliance
بازار میں اہرام
اگرچہ یہ مصر میں چیوپس اہرام کی طرح قدیم نہیں ہے لیکن یہ بھی تقریباً 200 سال پرانا اہرام ہے۔ یہ کارلزروئے کے بازار کے وسط میں ایستادہ ہے اور یہ شہر کے بانی کارل ولہیم وان باڈن ڈرلاچ کا مقبرہ ہے۔ یہ 1823ء سے 1825ءکے درمیان تعمیر کیا گیا تھا اور اس کی اونچائی تقریباً سات میٹر ہے۔ یہ کارلزروئے کی اہم نشانی ہے اور مقامی لوگوں اور سیاحوں دونوں کے لیے میل جول کا ایک اہم مقام بھی ہے۔
تصویر: Ralf Freyer/DUMONT/picture-alliance
خالی مقبرہ
مٹی سے بنا یہ اہرام کاٹبس شہر کے قریب ایک پارک میں واقع ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں سنکی پرنس پیکلر نے اس لینڈ سکیپ گارڈن پارک ڈیزائن کیا اور اس اہرام کو اپنی ساتھی اور سابقہ بیوی کے لیے تدفین کی جگہ بنانے کا ارادہ کیا۔ تاہم آخر میں یہ جوڑا جھیل کے وسط میں بنے ایک دوسرے اہرام میں دفن کیا گیا۔
تصویر: Patrick Pleul/dpa-Zentralbild/dpa/picture alliance
شیشے کا اہرام
جرمنی کے جنوبی شہر اولم میں شیشے کے اس اہرام میں ایک پبلک لائبریری قائم ہے۔ اس 35 میٹر بلند اہرام میں میں نو منزلیں، دو لفٹیں اور ایک سیڑھی بھی ہے۔ یہ 2004 ء میں کھولا گیا تھا اور اس کی پانچویں منزل پر ایک کیفے ہے، جس میں بیٹھ کر شہر کا بہترین نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ شاید بادشاہ توتن خامن کو بھی یہ جدید اہرام پسند آیا تھا۔
تصویر: Stefan Puchner/dpa/picture-alliance
’دو سے مل کر بنا ایک‘
ہیمبرگ کے لوکی شمٹ بوٹانیکل گارڈن میں واقع دو عمارتیں ایک اہرام کی دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہیں۔ 2004 ء میں بنائے گئے یہ شاندار ڈھانچے بلاشبہ اس پارک کی ایک خصوصیت ہیں۔ یہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ تھا، جو انتہائی موزوں طور پر ایک صحرائی باغ میں کھڑا ہے۔ ان کے اندر ایک چھوٹی سی نمائش کا مقام ہے، جہاں ہر کوئی صحرائی باغات کے بارے میں جان سکتا ہے۔
تصویر: C. Kaiser/blickwinkel/picture alliance
نامکمل اہرام ؟
ایسا لگتا ہے کہ یہ کام جاری ہے، لیکن یہ ڈھانچا ایک مکمل ٹیٹراہیڈرون یعنی ایک سہہ رخی اہرام ہے۔ یہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں بوٹروپ کے مقام پر واقع ہے۔ 60 میٹربلندی والا یہ ڈھانچا اردگرد کا نظارہ لینے کے کام بھی آتا ہے۔ زائرین 18 میٹر کی اونچائی پر قائم کیے گئے پہلے ویونگ پلیٹ فارم تک پہنچنے کے لیے ایک سسپنشن پل عبور کرتے ہیں۔
تصویر: Alexander Ludwig/CHROMORANGE/picture alliance
اہرام کی برادری
یہ ساؤرلینڈ کے اہرام ہیں۔ لینی شٹٹ شہر میں واقع اہرام کا جوڑا سات عمارتوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے تین کا استعمال ایک بائیومیڈیکل کمپنی کرتی ہے جبکہ باقی چار کا تعلق گیلیلیو پارک سے ہے۔ یہ ایک ’’نالج اینڈ پزل پارک‘‘ ہے، جہاں زائرین بدلتی ہوئی نمائشوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: S. Ziese/blickwinkel/picture alliance
سیاہ اہرام
کیا آپ کو لگتا ہے کہ جرمن شہر مینز میں واقع یہ سیاہ اہرام مستقبل کی نوید سنانے والی یا ایک دھمکانے والی عمارت ہے؟ یا پھر یہ آپ کے خوابوں کی شادی کے لیے واقعی ایک مثالی مقام ہے؟ درحقیقت یہ ایک کرائے کی جگہ ہے جو کسی بڑے ایونٹ کے لیے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس عمارت کی تشہیر کرنے والوں کے مطابق یہ 2600 مربع میٹر جگہ ہے۔
تصویر: Andreas Arnold/dpa/picture alliance
اہرام والا چرچ
ایک ہائی وے کے کنارے قائم اہرام دراصل ایک چرچ بھی ہو سکتا ہے۔ بالکل جیسے کے زیر نظر تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چرچ باڈن باڈن سروس ایریا میں ایکسپریس وے کے با لکل قریب واقع ہے۔ چرچ کے لیے اہرام کی شکل کا ڈیزائن 1970ء میں ایک آرکیٹیکچرل مقابلے کے دوران منتخب کیا گیا تھا۔ 1978 میں اس نے عبادت گزاروں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔
شیشے کا یہ اہرام جرمنی کے انتہائی مشرق میں ڈوبرن نامی قصبے میں واقع ہے، جو شیشے کی تیاری کی روایت کے لیے مشہور ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا شیشے کا اہرام خوردہ اسٹور ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ تنہا نہیں ہے! 18 میٹر اونچے اس پیرامڈ اسٹور میں شیشے کے 10,000 سے زیادہ منفرد فن پارے رکھے گئے ہیں جو مقامی اور بین الاقوامی شیشے کے فنکاروں نے بنائے ہیں۔
تصویر: Klaus Nowottnick/picture alliance
پانی کے جھولے والا اہرام
کسی کے پاس ایک جرات مندانہ آئیڈیا تھا اور اس نے اپنے اس خیال کو حقیقت بنانے کی ہمت کی۔ خیال یہ تھا کہ ایک اہرام بنایا جائے اور اس میں سے ایک واٹر پارک کی سواری بنائی جائے۔ جرمن شہر لیپزگ کے قریب بیلنٹیس تفریحی پارک کے زائرین ’’فرعون کی لعنت‘‘نامی واٹر رائیڈ پر سوار ہوتے ہوئے اس 31 میٹر اونچے اہرام سے گزر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے اہرام کی سرزمین، جرمنی کے چھوٹے سے سفر کا اختتام کرتا ہے۔
تصویر: Waltraud Grubitzsch/dpa/picture-alliance
10 تصاویر1 | 10
محققین کی بین الاقوامی ٹیم نے اس دریائی راستے کی تلاش کے لیے ریڈار سیٹلائٹ امیجری کا استعمال بھی کیا۔ ان خصوصی ریڈراز کے ذریعے ریت کے اندر دریائی ڈھانچے کو دریافت کیا گیا۔ کمیونیکیشنز ارتھ اینڈ انوائرمنٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق اہرام کے قریب ریت کے نیچے دریائے نیل کی مدفون شاخ کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی ہے۔
محققین کے مطابق ممکنہ طور پر چار ہزار دو سو برس قبل مصر میں شدید خشک سالی کی وجہ سے دریائے نیل کا یہ حصہ خشک ہو کر ریت تلے دفن ہو گیا تھا۔