1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

کیا یورپی یونین کا چینی دھاتوں کے بغیر گزارا ممکن ہے؟

18 اپریل 2022

یورپی یونین کو توانائی کی منتقلی اور ڈیجیٹلائزیشن کے شعبے میں ہونے والی ترقی کو کامیابی سے جاری رکھنے کے لیے اہم اور نایاب دھاتوں کی ضرورت ہے۔ لیکن زیادہ تر یہ میٹیریل چین سے آتے ہیں۔

Seltene Erden Mine
تصویر: Wang chun lyg/Imaginechina/picture alliance

ایک طرف یورپی یونین روس پر سے توانائی کے اپنے انحصار کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے جو کہ آسان نہیں ہے، دوسری جانب جب بھی یورپی بلاک کو ونڈ ٹربائنز، الیکٹرک گاڑیوں، سولر سیلز اور سیمی کنڈکٹرز کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے صنعتی اور نادر دھاتوں کے لیے چین پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹلائزیشن اور توانائی کے شعبوں میں ہونے والی تیز ترین تبدیلیوں کے پیش نظر، ایسے خام مال کی مانگ میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے تاہم نایاب دھاتوں کی کان کنی دنیا کے صرف مٹھی بھر خطوں میں ہی ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل میں چین یورپی یونین کے لیے شدید درد سر بن سکتا ہے۔ ایشیائی ممالک بہت سے ایسے خام مال برآمد کرتے ہیں، جو مستقبل کی صنعتوں کے لیے ناگزیر ہیں۔ اہم بات یہ کہ چین نا صرف کان کنی میں بلکہ 'میٹیریل پروسیسنگ‘ یا موادکی پروسیسنگ میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کہنا ہے 'جرمن منرل ریسورسز ایجنسی ‘ DERA کے اہلکار سیامند ال بارازی کا۔

چین کی حقیقی اجارہ داری

دھاتوں کی درآمدات کی بات کی جائے تو یورپی یونین کا انحصار  75 تا 100 فیصد تک درآمدات پر ہے، اور اس کا دارومدار اس امر پر بھی ہے کونسی دھات درآمد کی جا رہی ہے۔ 30 ایسے خام مال ہیں، جنہیں یورپی یونین غیر معمولی اہم قرار دیتی ہے، ان میں سے 19 بنیادی طور پر چین سے آتے ہیں۔ اس فہرست میں میگنیشیم، نایاب دھاتیں اور ایک خاص قسم کی دھات 'بسمتھ‘  شامل ہیں۔ ان پر چین کی ایک طرح سے اجارہ داری ہے اور وہ یورپی یونین کو اس کا 98  فیصد فراہم کرتا ہے۔

یورپی یونین کا چین پر یہ انحصار مستقبل میں مزید بڑھے گا۔ یورپی یونین کا خیال ہے کہ 2030 ء تک یہاں مخصوص قسم کی دھات 'کوبالٹ‘  کی طلب میں پانچ گنا اضافہ ہو گا، جبکہ یورپی یونین کی ای موبیلیٹی مہم کی وجہ سے 2030 ء تک لیتھیم کی طلب میں 18 گنا اور 2050ء تک 60 گنا اضافہ متوقع ہے۔

اگلی نصف صدی کے لیے اہم ترین سعودی ترجیح چینی انرجی سکیورٹی

جرمنی کا بندھن

جرمنی برسوں سے اپنی خام مال کی برآمدات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نایاب دھاتیں اب نہ صرف چین بلکہ برازیل سے بھی جرمنی درآمد کی جا رہی ہیں۔ 2010ء  میں  جرمنی نے معدنی وسائل کی ایجنسی قائم کی جو دنیا بھر میں وسائل کی دستیابی پر مسلسل نظر رکھتی ہے۔  'جرمن منرل ریسورسز ایجنسی ‘ DERA کے اہلکار سیامند ال بارازی کے بقول، ''ہم دس برسوں سے ان دھاتوں کی مانگ میں اضافے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔‘‘

DERA کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جرمنی خام مال اور پروسیسڈ شدہ سامان کے لیے چین پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ چین کی طرف سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ پائیدار پروڈکشن کے طریقوں اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے مزید کام کرنے پر رضامند ہے۔ ملکی سطح پر کیے جانے والے معائنے کے دوران گزشتہ سال کے اواخر تک چین بھر میں میگنیشیم پیدا کرنے والے متعدد پلانٹس بند ہو گئے۔ نتیجتاً  فی ٹن میگنیشیم کی قیمت میں ایک ہزار آٹھ سو پچاس تا 9 ہزار دو سو پچاس یورو فی ٹن اضافہ ہوا۔ البرازی کے مطابق، چین میں سلیکون تیار کرنے والی صنعت میں بھی ایسا ہی ہوا، جس کی وجہ سے مجموعی پیداوار میں واضح کمی واقع ہوئی۔

30 ایسے خام مال ہیں، جنہیں یورپی یونین غیر معمولی اہم قرار دیتی ہےتصویر: picture alliance / dpa

یورپ میں کان کنی

2020 ء کے موسم خزاں میں پورپی یونین 'خام مال الائنس‘ کا قیام وجود میں آیا۔ اس کا مقصد سکیورٹی میں اضافہ اور یورپ کی صنعتوں کے لیے درآمدات کو متنوع بنانا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین  میں کان کنی اور پروسیسنگ کی سرگرمیوں کو بڑھانا ہے۔ البزاری کا کہنا تھا، ''یورپی یونین میں کان کنی میں مدد کے لیے برسوں سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘

چند اہم میٹیریل یورپ میں موجود ہو سکتے ہیں، لیکن بہت سے ممالک نہیں چاہتے کہ کان کنی کی وجہ سے آلودہ سرگرمیاں ہوں۔ مثال کے طورپر اسپین کو ایسٹریمادورا میں لیتھیم کی کان کھولنے کے خلاف عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کے مظاہرے سربیا اور پرتگال میں بھی ہوئے۔ جرمنی میں بھی لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ 2025 ء میں جرمن ریاست سیکسنی میں لیتھیم کی کان کنی شروع ہونے والی ہے۔

ری سائیکلنگ ایک حل

ایک امر یقینی ہے کہ یورپ اپنی کان کنی سے اپنی مانگ کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکتا۔ اس مسئلے کا ایک ری سائیکلنگ بھی ہو سکتا ہے یعنی موثر ری سائیکلنگ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مواد کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے اور سرکُلر اکانومی پر زیادہ توجہ دی جائے۔ لیکن اس کی بھی کچھ حدود ہیں۔

ڈی آر اے چلانے والے پیٹر بوخ ہولس کے مطابق، ''جب تک مجموعی طور پر مانگ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو جرمنی میں صرف ری سائیکلنگ ہی اس مسئلے کو کم کر سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''صنعت صرف ان چیزوں کو ری سائیکل کر سکتی ہے جو حقیقت میں دستیاب ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ''لگ بھگ 40 سال پہلے، تانبے کی طلب ایک سال میں 10ملین ٹن تھی، آج یہ 20 ملین ٹن سے زیادہ ہے۔‘‘

 انسا ویڈے) ک م/ ع ا(

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں