اہواز میں ایرانی فوجی پریڈ پر فائرنگ میں درجنوں ہلاکتیں
22 ستمبر 2018
ایرانی شہر اہواز میں ہفتے کے دن ایک فوجی پریڈ پر حملے کے نتیجے میں کم از کم چوبیس افراد ہلاک اور بیس دیگر زخمی ہو گئے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے بقول حملہ آوروں کو بیرون ملک سے بھرتی کیا گیا تھا۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران سے بائیس ستمبر کو موصولہ مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق آج ہفتے کے روز ایران میں ایران عراق جنگ کے آغاز کی سالگرہ کے موقع پر مختلف شہروں میں بڑی فوجی پریڈوں کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس موقع پر ملکی صدر حسن روحانی نے قوم سے خطاب بھی کیا تھا۔ اپنے اس خطاب میں صدر روحانی نے کہا تھا کہ ایران امریکی صدر ٹرمپ کو بھی اسی طرح شکست دے دے گا، جیسے ماضی میں عراقی آمر صدام حسین کو شکست دی گئی تھی۔
انہی فوجی پریڈوں کے دوران جو تہران، بندر عباس اور کئی دیگر بڑے شہروں میں منعقد کی گئیں، تیل کی دولت سے مالا مال صوبے خوزستان کے دارالحکومت اہواز میں چند مسلح افراد نے اس پریڈ کے شرکاء پر خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں آخری اطلاعات آنے تک 24 افراد ہلاک ہو گئے۔ مرنے والوں میں اکثریت ایران کے محافظین انقلاب نامی فوجی دستوں کے ارکان کی ہے۔ کم از کم بیس دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔
یہ فائرنگ اس پریڈ کو دیکھنے کے لیے جمع عام شہریوں اور اس میں شریک دستوں پر پیچھے سے کی گئی اور آخری خبریں ملنے تک کسی بھی مسلح گروپ نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔
ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق اہواز میں اس پریڈ کا اہتمام شہر کی قدس بولیوارڈ نامی مرکزی شاہراہ پر کیا گیا تھا اور اس میں شریک افراد ملک کے دیگر شہروں میں عوام اور فوجی دستوں کی طرح ایران اور عراق کے درمیان اس جنگ کے آغاز کی سالگرہ منا رہے تھے، جو 1980ء میں شروع ہو کر 1988ء تک جاری رہی تھی اور جس میں مجموعی طور پر ہزارہا ایرانی اور عراقی فوجی مارے گئے تھے۔
دو حملہ آور ہلاک، دو گرفتار
اس فائرنگ کے دوران اہواز میں فوجی پریڈ اور اس کے شرکاء مکمل طور پر بدنظمی کا شکار ہو گئے جب کہ خوزستان کے گورنر غلام رضا شریعتی نے سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کو بتایا کہ یہ فائرنگ ایسے حملہ آوروں نے کی، جو موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر قدس بولیوارڈ پہنچے تھے۔ شریعتی کے مطابق اس فائرنگ کے دوران موقع پر موجود سکیورٹی اہلکاروں کی حملہ آوروں کے ساتھ جھڑپ شروع ہو گئی تھی، جس دوران دو حملہ آور موقع پر ہی مارے گئے جب کہ باقی دو کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس حملے کے کچھ ہی دیر بعد سرکاری ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ یہ حملہ ’تکفیری حملہ آوروں‘ کی طرف سے کیا گیا۔ ایران میں یہ اصطلاح بالعموم شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
10 تصاویر1 | 10
’عرب علیحدگی پسند‘
اسی دوران ایرانی محافظین انقلاب نامی دستوں کے ترجمان جنرل رمضان شریف نے مزید کوئی وضاحت کیے بغیر ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ یہ حملہ ایک ’عرب علیحدگی پسند‘ گروپ کی طرف سے کیا گیا۔
اس حملے سے قبل ایران میں ایسا کوئی بڑا عسکریت پسندانہ یا دہشت گردانہ حملہ سات جون 2017ء کو تہران میں کیا گیا تھا، جب داعش ہی کے جنگجوؤں نے آیت اللہ خمینی کے مقبرے اور ملکی پارلیمان کی عمارت پر مربوط حملے کیے تھے۔ ان حملوں میں گزشتہ برس کم از کم بھی 18 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
’غیر ملکی ہاتھ‘
اہواز میں آج کے ہلاکت خیز حملے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ اس جنوب مغربی شہر میں یہ حملہ ایسے عسکریت پسندوں نے کیا، جنہیں ’ایک غیر ملکی طاقت کی مدد اور پشت پناہی‘ حاصل تھی۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ان دہشت گردوں کو ایک غیر ملکی طاقت نے بھرتی کیا، تربیت دی اور انہیں اس کام کے لیے مالی ادائیگیاں بھی کی گئی تھیں۔‘‘
جواد ظریف کے مطابق اس حملے کے بعد ’ایرانی عوام کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے تہران جلد ہی اپنا فیصلہ کن رد عمل‘ ظاہر کرے گا۔ وزیر خارجہ کے مطابق اس حملے میں زخمی ہونے والوں میں بچے اور صحافی بھی شامل ہیں۔
م م / ع ب / اے ایف پی، روئٹرز
تہران میں حملے، تصاویر بولتی ہیں
ایرانی پارلیمنٹ اور انقلابِ ایران کے سربراہ آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر ہونے والے ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 12 ہو گئی ہے۔
تصویر: Tasnim
خودکش حملہ آور اور مسلح افراد نے آج بدھ سات جون کو ایرانی دارالحکومت تہران میں ملکی پارلیمان کی عمارت اور ایرانی انقلاب کے سربراہ آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Tasnim
تہران میں ہونے والے دو حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروہ داعش نے قبول کر لی ہے۔
تصویر: Tasnim
ایرانی میڈیا اور حکام کے مطابق ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہے۔
تصویر: Tasnim
داعش کی طرف سے ایران میں اس طرح کی یہ پہلی کارروائی ہے۔
تصویر: Tasnim
داعش کی طرف سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے، جس میں مسلح افراد کو پارلیمان کی عمارت کے اندر دکھایا گیا ہے جبکہ ایک شخص زخمی حالت میں فرش پر گرا نظر آتا ہے۔
تصویر: Tasnim
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم نے ملک کے نائب وزیر داخلہ حسین ذوالفقاری کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آور خواتین کے لباس میں پارلیمان کے مرکزی راستے سے اندر داخل ہوئے۔
تصویر: Tasnim
ذوالفقاری کے مطابق ان میں سے ایک کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا جبکہ ایک نے اپنی خودکش جیکٹ دھماکے سے اڑا دی۔
تصویر: Tasnim
اس حملے سے متعلق ابتدائی رپورٹوں کے قریب چار گھنٹے بعد ایرانی نیوز ایجنسیوں نے بتایا کہ پارلیمان پر حملہ کرنے والے چاروں افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Mehr
ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’میں پارلیمنٹ کے اندر ہی تھا جب فائرنگ شروع ہوئی۔ ہر کوئی پریشانی اور خوف میں مبتلا تھا۔ میں نے دو افراد کو دیکھا جو اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے۔‘‘
تصویر: Tasnim
حسین ذوالفقاری کے بقول پارلیمان پر حملے کے فوری بعد ایک اور خودکش حملہ آور نے تہران کے جنوبی حصے میں واقع انقلاب ایران کے سربراہ آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
تصویر: Reuters/TIMA
پاسدارانِ انقلاب نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس کارروائی میں امریکا اور سعودی عرب ملوث ہیں۔
تصویر: Tasnim
ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے آج دارالحکومت تہران میں کیے جانے والے ان دو حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: Tasnim
پاکستان، ترکی اور قطر سمیت مختلف ممالک نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Isna
ان حملوں میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ داعش نے علامتی لحاظ سے ایران کی اہم ترین عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔