ایبولا سے ہفتہ وار بنیادوں پر ہزاروں افراد متاثر ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت
15 اکتوبر 2014عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل برُوس آئلورڈ نے منگل کے روز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش گوئی کی کہ دسمبر کے پہلے ہفتے تک اس متعدی بیماری کا پھیلاؤ ’پانچ تا دس ہزار افراد فی ہفتہ‘ تک پہنچ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس تباہ کن وائرس سے متاثر ہونے والے آٹھ ہزار نو سو چودہ افراد میں سے چار ہزار چار سو 47 ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک لائبیریا، سیرالیون اور گنی ہیں۔
صورت حال کی اسی سنگینی کی وجہ سے اقوام متحدہ عوامی شعبے میں ہنگامی حالت کے ایک اجلاس کا انعقاد کر رہا ہے۔ عالمی ادارہء صحت اس متعدی بیماری کو ’عہد جدید کی سب سے خطرناک صورت حال‘ قرار دے چکا ہے۔
پیر کو امریکی صدر باراک اوباما اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس وائرس کی روک تھام کے لیے ایک بین الاقوامی مہم کے آغاز کی اپیل کی تھی۔ واضح رہے کہ اس وائرس کے خلاف کوئی مؤثر دوا موجود نہیں اور اب تک اس میں مبتلا ہونے والے ہر دس میں سے سات افراد اپنی زندگی کی بازی ہارتے نظر آتے ہیں۔
مغربی افریقی ممالک کی حکومتیں اس متعدی بیماری سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں، تاہم اب تک اس سلسلے میں کوئی واضح کامیابی دکھائی نہیں دی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مغربی افریقہ میں اس وائرس سے متاثرہ علاقوں میں دل دہلا دینے والے مناظر دکھائی دے رہے ہیں، جہاں متعدد ہسپتالوں میں ہیلتھ ورکرز غائب ہیں اور مریض کسمپرسی کا شکار۔
پیر کی شب اقوام متحدہ کے ادارے یو این وی (یونائیٹڈ نیشنز وولنٹیئرز) سے وابستہ ایک سوڈانی ڈاکٹر اس وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ اسے گزشتہ ہفتے علاج کے لیے جرمنی منتقل کیا گیا تھا، تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔
اے ایف پی کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک میں بھی طبی عملہ سخت احتیاطی تدابیر کے باوجود اس وائرس میں مبتلا مریضوں کی وجہ سے خطرات کا شکار ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں لائبیریا سے امریکا پہنچنے والے ایبولا وائرس کے ایک مریض کا علاج کرنے والی ایک نرس اس وائرس کے حملے کا شکار ہو چکی ہے۔ ادھر سیرا لیون میں ایک ہسپانوی نرس بھی اس وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد اب اسپین میں زیرعلاج ہے۔