ایبولا وائرس جنگل کی آگ کے مانند پھیل سکتا ہے، امریکا
29 جولائی 2014ہیلتھ حکام کی جانب سے یہ انتباہ ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب مغربی افریقی ملکوں میں ایبولا وائرس کی وبا تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ وہاں مارچ کے مہینے سے اب تک ایک ہزار دو افراد کے اس وائرس کے نشانہ بننے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
بیماریوں پر قابو پانے سے متعلق امریکی ادارے (سی ڈی سی) کے مطابق گنی، لائبیریا اور سیرالیون میں اس مرض کے باعث چھ سو بہترّ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لائبیریا کے علاقے مونرویا میں دو امریکی شہریوں کے بھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کی اطلاع ہے، جن میں سے ایک ڈاکٹر اور ایک ہیلتھ ورکر ہے۔
اس وائرس کی علامتوں میں بخار، جوڑوں کا درد، دست، الٹیاں اور خون کا رسنا شامل ہو سکتا ہے۔ سی ڈی سی کے نیشنل سینٹر فار ایمرجنگ ایند زُونوٹک انفیکشیئس ڈیزیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسٹیفن مونرو کا کہنا ہے: ’’اس وبا کے افریقہ سے باہر نکلنے کا خدشہ بہت ہی کم ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ صورتِ حال بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور سی ڈی سی کو ہر بات کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ کوئی بیمار مسافر اس وائرس کے ساتھ امریکا نہ پہنچ جائے۔
سی ڈی سی نے درجہ دوم کا ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ لوگ متاثرہ ملکوں میں خون اور جسمانی مادوں سے دُور رہیں۔
اس ادارے نے امریکا میں صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں کو بھی ایک نوٹس بھیجا ہے، جس میں انہیں اس بات کا پتہ چلانے کے لیے کہا گیا ہے کہ ان کے پاس زیرِ علاج کسی مسافر نے دو ہفتے پہلے مغربی افریقہ کا سفر تو نہیں کیا تھا۔ انہیں ایبولا کی علامتوں سے پوری طرح واقف ہونے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
مونرو نے کہا ہے کہ صحت کے مراکز پر ٹیکے، مریض کے پاخانے یا ابکائی کی صفائی اور خون کے باعث ایبولا کے پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
اُدھر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا متاثرہ علاقوں میں ایبولا سے بچاؤ کے لیے آلات اور دیگر اشیا فراہم کر رہا ہے۔ یہ دُنیا کی خطرناک ترین بیماریوں میں سے ایک ہے اور اس وائرس کی علامتیں دیگر بیماریوں کے مانند ہی ہیں۔