ایتھنز کے پرانے ایئرپورٹ سے مہاجرین کو نکال دیا گیا
شمشیر حیدر Reuters
3 جون 2017
یونانی پولیس نے جمعے کے روز ایتھنز کے متروک ایئرپورٹ پر مہاجرین کی عارضی پناہ گاہ ختم کرتے ہوئے تمام تارکین وطن کو وہاں سے نکال دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کیمپ کی صورت حال کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Stavrakis
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی یونان سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایتھنز کے پرانے ایئرپورٹ سے مہاجرین کے انخلا کا کام جمعہ دو جون کو مکمل کر لیا گیا۔ اس متروک ایئرپورٹ کو یونان آنے والے تارکین وطن کے لیے ایک عارضی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔
یونانی پولیس کا کہنا ہے ایتھنز کے ہیلینیکون ایئرپورٹ میں بنائے گئے عارضی رہائشی کیمپ میں مقیم قریب چار سو تارکین وطن کو وہاں سے نکال کر دیگر کیمپوں میں منتقل کرنے کا کام جمعے کے روز مکمل کر لیا گیا۔ گزشتہ برس کے دوران یہاں تین ہزار سے زائد تارکین وطن کو عارضی رہائش گاہ مہیا کی گئی تھی۔ یونانی دارالحکومت کا یہ متروک ایئرپورٹ اور اس سے منسلک عمارت سن 2004 میں اولمپک مقابلوں کے دوران بھی زیر استعمال تھے۔
پچھلے سال موسم سرما میں جب یہاں ہزاروں پناہ کے متلاشی افراد کو رکھا گیا تھا تو شدید گرمی کا موسم تھا۔ ایئرپورٹ ٹرمینلز پر رہنے والے تارکین وطن کے لیے سخت موسم کے علاوہ ناقص خیمے، خوراک کی عدم دستیابی، جرائم اور تشدد کا سامنا تھا۔
نومبر 2015 میں یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحدی راستے بند کر دیے گئے تھے اور مغربی یورپ جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن اس سرحد پر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان حالات میں یونانی حکام نے ان دربدر تارکین وطن کو ملکی دارالحکومت کے اس متروک ہوائی اڈے پر ہنگامی اور عارضی رہائش فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کیمپ میں رہنے والوں کی صورت حال کو غیر انسانی قرار دے کر ایتھنز حکومت سے مطالبہ کرتی رہی تھیں کہ تارکین وطن کو کسی بہتر مقام پر منتقل کیا جائے۔ یونانی حکام بارہا وعدوں کے باوجود اقتصادی مشکلات کے باعث ان مہاجرین کو متبادل رہائش گاہیں مہیا نہیں کر پائے تھے۔ علاوہ ازیں عارضی کیمپ میں مقیم تارکین وطن بھی یونان کے مختلف شہروں میں فراہم کی گئی رہائشی سہولیات کا رخ کرنے سے اجتناب کر رہے تھے۔
گزشتہ برس بلقان روٹ بند ہو جانے کے بعد سے یونان میں باسٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن پھنس کر رہ گئے ہیں۔ یونان میں پھنسے ان ہزاروں تارکین وطن، جن میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان اور پاکستان سے ہے، کو عام طور پر یورپ میں پناہ کا حقدار تسلیم نہیں کیا جاتا اور انہیں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ ایسے تارکین وطن کو اندیشہ ہوتا ہے کہ ایتھنز سے دور کسی علاقے میں رہائش اختیار کی گئی تو ان کے مغربی یورپ پہنچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔